تحریر : فرید احمد فرید 1998/99کی بات ہے میاں نواز شریف ملک کے طاقتور وزیراعظم تھے پاکستان کی تاریخ کے یہ دوسرے وزیراعظم تھے جو دوسری بار دوتہائی اکثریت سے منتخب ہوئے تھے میاں صاحب کی شروع دن سے یہ غلطی رہی ہے کہ یہ حکومت میں آکر اپنے منظور نظر لوگوں کو نوازنا شروع کردیتے ہیں اور ہر اہم ادارے کا سربراہ اپنی مرضی کا لگانے کی کوشش کرتے ہیں تب بھی میاں صاحب یہ غلطی کرگئے اور ملکی افواج کا سربراہ ایسے شخص کو لگا بیٹھے جو فورسیڈ جنرل کی فہرست میں بھی شامل نہیں تھے یعنی کہ پرویز مشرف صاحب کوشروع دن سے مشرف صاحب اور میاں صاحب میں ان بن رہنے لگی پھر کارگل کی جنگ کا مسئلہ پیش آگیا اور ہم کشمیر فتح کرنے کے قریب پہنچ گئے کشمیر ایک ایسا ایشو ہے جس کی وجہ سے آپ لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کر سکتے ہیں۔
مشرف صاحب کو آرمی چیف لگا کر میاں صاحب ایک غلطی تو کرچکے تھے سونے پہ سہاگہ کشمیر کی بنیاد پر ہونے والی جنگ میں جب ہم بہت دور تک انڈیا کے علاقے داخل ہوچکے تھے تو آرمی چیف سے مشورہ کیے بغیر میاں صاحب امریکہ جاپہنچے اور جنگ بندی کا اعلان کردیا میاں صاحب کی یہ دوسری اور سب سے بڑی غلطی تھی جس کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑا اور یہ حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور جنگ بندی سے واپسی پہ ان کے طیارے کو لینڈ کرنے کی اجازت نہ ملی اور ان کو سعودی عرب بھیج کر جلاوطن کردیا گیا مشرف صاحب کشمیر کے ایشو پہ جنگ کرکے عوامی ہمدردیاں تو پہلے ہی حاصل کرچکے تھے سو عوام نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور میاں صاحب کے جانے کی خوشی میں مٹھائیاں بانٹی گئی۔
یوں مشرف صاحب بیک وقت آرمی چیف اور صدر بن گئے اور مشرف صاحب کی پالیسی میاں صاحب کی پالیسی کی نسبت مضبوط تھی جس سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوا اور غیر ملکی سرمایہ داروں کا اعتماد بحال ہوا اور وہ پاکستان میں آکر اپنا کاروبار شروع کرنے لگے جس سے ہزاروں افراد کو روزگار میسر ہوا 4 سے5 سال گزارنے کے بعد لال مسجد کا واقعہ وقوع پذیر ہوا جس سے عوام میں مشرف صاحب کے خلاف غم وغصہ پھیل گیا پاکستان میں مذہب ایسی چیز ہے جس سے آپ آسانی سے لوگوں کی حمایت حاصل کرسکتے ہیں اور اپنی مقبولیت کھو بھی سکتے ہیں سو مشرف صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہوا اور وہی قوم جو مشرف صاحب کو ہنسی خوشی لائی تھی ان کے جانے پر بھی خوشیاں منانے لگی اور مٹھائیاں بانٹی گئی اب زرداری صاحب کا دور شروع ہوا جو محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کروا کر ان کے نام پر ووٹ لے کر صدارتی کرسی پر براجمان ہوئے اور مشہور سیاسی نعر ہ “ایک زراری سب پہ بھاری ” کو سچ ثابت کرنے لگے اب ایک بار پھر میری قوم خوشی سے نہال ہوگئی اور خوب جشن منایا گیا اور مٹھائیاں بانٹی گئی پانچ سال بخیر و عافیت گزارنے کے بعد پھر میاں نواز شریف صاحب کی باری آئی اور وہ ملکی تاریخ میں تین دفعہ منتخب ہونے والے پہلے وزیراعظم بنے ان کو بھاری عوامی مینڈیٹ حاصل تھا۔
عوامی طور پر ان کو بہت سراہا گیا اور خوب مٹھائیاں بانٹی گئی میاں صاحب اس دفعہ غلطی کرنے کے موڈ میں نہیں تھے اور انہوں نے ایک خاندانی آدمی کو ملکی افواج کا سربراہ بنادیا اور اس طرف سے مطمئن ہوگئے پھر شروع دن سے ہی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں دھاندلی کے نام پر ان کے لیے مشکلات کھڑی کرتے نظر آئے جس میں طاہرالقادری صاحب نے بھی خوب حصہ ڈالا اور ملکی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا اسلام آباد ڈی چوک میں دیا گیا چونکہ اس دفعہ میاں صاحب نے ایک خاندانی آدمی جس کا پورا خاندان فوجی تھا اور بڑے بڑے فوجی اعزازات رکھتا تھا کو آرمی چیف لگایا تھا سو اس وجہ سے یہ مرحلہ بھی آسانی سے گزر گیا اور میاں صاحب حکومتی امور پر توجہ دینے لگے پھر اچانک میاں صاحب کی تقدیر نے ایک بار پھر پلٹا کھایا اور اور حالات ان کے خلاف ہونے لگے۔
پانامہ لیکس اور جے آئی ٹی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت نے ان کو نااہل قرار دے دیا اور ایک بار پھر وزیر اعظم کی مدت پورا کیے بغیر ان کو وزارت عظمی سے ہاتھ دھونا پڑے ایک بار پھر میری قوم نے جشن منایا اور خوب مٹھائیاں بانٹی گئی اب میرا سوال کسی سیاستدان سے نہیں ہے بلکہ میرا سوال میری قوم سے ہے جو جس شخص کے آنے پہ خوشی مناتی ہے اسی شخص کے جانے پہ بھی خوشی مناتی ہے یہ کیسا دوغلا پن ہے یہ کیسی منافقت ہے میں اپنی قوم کے کردار سے شکوہ کناں ہوں یہ قوم کوئی فرشتہ چاہتی ہے جو آسمانوں سے اتر کر ان کی رہبری کرے ان کے مسائل حل کرے پہلے میری قوم کو سدھرنے کی ضرورت ہے پھر حالات بدلنے والے ہیں۔