تحریر:امتیاز شاکر کون جانتا تھا کہ قرض اُتارو ملک سنوارو کی بے پناہ مقبولیت کے بعد کشکول توڑے کے دلفریب وعدوں کے بل بوتے پر الیکشن جیت کر حکومت بنانے والی جماعت مسلم لیگ ن کے قائدین قرض کی بھیک ملنے پر خوشیاں منائیں گے؟اب حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں کشکول کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں نے چھوٹے کی جگہ بڑا (میگا)کشکول تیار کررکھاتھا۔کوئی بھلا انسان قرض اُترنے پرتو خوش ہوسکتاپرقرض پرقرض حاصل کرناکبھی خوشی کا باعث نہیں ہوتا۔پہلے ہی پاکستانی قوم کا بچہ،بچہ قرضوں کے بوجھ تلے دب چکاہے جبکہ حکمران آئی ایم ایف سے نیاقرض ملنے کی نوید سناکر قوم کو کامیابی کی مست راگنی چھیڑے جھومتے نظرآتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوںآئی ایم ایف نے پاکستان کو 51 کروڑ 80 لاکھ ڈالر قرض کی قسط دینے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔حالت دیکھیں آقانے ابھی رضامندی ظاہر کی ہے اور ہم خوشیاں منارہے تو 51 کروڑ 80 لاکھ ڈالر قرض ملنے پر ہماری کیاپوزیشن ہوگی؟ایک اور خوشخبری کہ آقانے بڑی منت سماجت کے بعد پاکستان کی درخواست پر ریونیو کے ہدف میں کمی پر رضا مندی بھی ظاہر کردی ہے۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے تین سالہ توسیعی فنڈ کے حوالے سے جائزہ مذاکرات کامیاب ہونے پر خوشی کا اظہار کیا اور یہ کہتے بھی سنائی دیئے کہ بجلی و گیس کے نرخوں میں ردو بدل یعنی قیمتیں کم نہیں کرینگے۔ قوم جانتی ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے بجلی و گیس کے بلوں میں اضافے کو قرض سے مشروط کیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم نے دو ماہ قبل بجلی کی قیمت میں 2 روپے نوے پیسے فی یونٹ کمی کا اعلان کیا تھا’ آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعدیا سادہ لفظوں میں یوں بھی کہاجاسکتاہے کہ آقاکا حکم بجالانے کی غرض سے اسحق ڈار وزیراعظم کے اعلان کے مطابق بجلی کی قیمت میں کمی نہیں کرنا چاہتے۔ماضی ہی کی طرح ایک بار پھر اسحق ڈار قرض ملنے پر بے حدخوش نظر آتے ہیں کہ جیسے اُن کو کوئی بہت بڑا خزانہ مل گیا ہو۔جیسے آئی ایم ایف سے نیا قرض ملنے کے بعد پاکستانی قوم کا ہرفرد برسرروزگار ہوجائے گا،جیسے اب ہر بچہ سکول سے کالج اور پھر یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کریگا۔
Election
جیسے ہر بیمار کو شفاء مل جائے گی،جیسے آئندہ الیکشن صاف وشفاف ہونگے کبھی دھاندلی سے جیت کر آنیوالے لوگ حکومت نہیں بناسکیں گے،جیسے اب ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی قائم ہوجائیگی ،جیسے انصاف امیروغریب کی تفریق کئے بغیر ہر شہری کو اُس کی دہلیز پر دستیاب ہوجائیگا،جیسے اب کبھی پاکستان میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی،جیسے اب کبھی سیلاب نہیں آئیں گے،جیسے،جیسے اور جیسے اب ۔ حالانکہ قرض لیتے ہوئے شرمساری کا احساس ہوتاہے پرموجودہ دورحکومت میںآئی ایم ایف سے قرض کی پہلی قسط ملی تو اس پر وزیر اعظم نے باقاعدہ قوم کو مبارک باد دی تھی۔ اطلاعات کے مطابق سری لنکا نے آئی ایم ایف کے تمام قرض اُتارا کر جان چھڑا لی ہے۔
ایک ہم ہیںکہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑتے جاتے ہیں اور خوشیاں مناتے جاتے ہیں۔جیسے قرض لعنت نہیں بلکہ کوئی مبارک چیزہو۔ جس طرح آج سری لنکا نے آئی ایم ایف کے تما م قرض اداکرکے اپنی آنے والی نسلوں کی جان چھڑائی ہے ہمیں بھی اپنی توانائیاں بروئے کارلاتے ہوئے قرض کی لعنت سے چھٹکاراحاصل کرناچاہئے ۔ حکومت قرض پر قرض لینے اور قوم کے گلے میں سود در سود کی لعنت ڈالنے کے بجائے لوٹ مار کے دو سو ارب ڈالر پاکستان لانے کی کوشش کرے جو دوسرے ممالک کے بنکوں میں پڑے ہیں تو بہتر ہوگا۔ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور اسلام میں سودقطعاًحرام ہے۔
سودکا گناہ اتنا ہے کہاللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا۔(پارہ 3،آیت 275 سورة بقرہ)قارائین اسلام میں سود کوحرام قطعی قرار دیا گیاہے ۔ جیسا کہ سرکاردوعالم علیہ الصلوة والسلام نے اس کو ماں کے ساتھ زنا کرنے سے بھی بدتر قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود سے مری ہے کہ رسول اللہۖ نے ارشاد فرمایا۔ترجمہ (یعنی) ربا کے تہتر درجے ہیں ان میں سب سے ہلکا درجہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زناکرے (شعب الایمان للبہقی)اور پھر اس میںسود لینے والے کوہی تخصیص نہیں بلکہ سود لینے والا،سودی معاملہ کی کتاب کرنے والااور اس معاملہ کا گواہ بننے والاسب برابرہیں نیزان سب پر سرکار دوعالم نے لعنت فرمائی ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں یعنی رسول اللہۖنے لعنت فرمائی سود کھانے والے اور سوددینے والے اورسودی معاملہ کو لکھنے والے اور اس کے گواہ بننے والوں پراور فرمایا سب برابر ہیں (صیحح مسلم)دنیا کے حالات بہت تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں۔
کمزور ،کمزور تر اور طاقتورمزید طاقت حاصل کررہاہے ۔دنیامیں کامیاب زندگی بسر کرنے کیلئے ہمیں اپنے زوربازوپر بھروسہ کرناہوگا۔دوسروں کے برتن میں جھانک کر کھاناتلاش کرنے کی بجائے اپنے حصے کا اناج خود اُگاناہوگا۔کسی غیر کے جوٹھے برتن کو چاٹنے سے بھوکے رہنے کو ترجہ دیناہوگی،قرض کے ایدھن سے جلنے والی شمع کی روشنی کی بجائے اپنا خون جلاکراپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کوروشن کرناہوگا ۔میرے ذہن میں ایسی مثال گردش کررہی ہے جومیں تحریر نہیں کرسکتا،بس اتنا ہی کہہ سکتاہوں کہ قرض خوار کبھی غیرت مندانہ طریقے سے زندگی بسر نہیں کرسکتا،ہمیشہ سرجھکاکرشرمساری اور احساس ندامت تلے دب کرسہولیات حاصل کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنی چادر کے اندرپائوں رکھے جائیں