ملت کا پاسباں محمد علی جناح

Quaid e Azam

Quaid e Azam

تحریر : وقار انسا
آج کا دن جب علامہ اقبال کے تصور پاکستان نے ایک قرار داد کی شکل اختیار کی اور یوں قائد اعظم مسلمانوں کے لئے حصول وطن کے لئے سر گرم عمل ہو گئے ان کا شمار ایسے رہنماں میں ہوتا ہے جو اپنے غیر معمولی شخصی اوصاف اپنی تاریخ فہمی اور تدبر کے حوالے سے اپنے زمانے پر اثر انداز ہوئے آپکے تدبروحکمت کے پیش نظر اکثر سیاسی رہنماں اور دانشوروں نے یہ بات کہی کہ قائد اعظم بیسویں صدی کی ملت اسلامیہ اور خصوصا بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے اللہ کا انعام تھے جنہوں نے مایوسی کی فضا میں عزم اور حوصلے کا چراغ جلایا۔

اس وقت آزاد ملک کی ضرورت کو محسوس کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ بر صغیر میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک کیا جاتا تھا بڑے عہدوں اور محکموں میں مسلمانوں کو ملازمت نہ ملتی تھی – اس وقت مسلمانوں کو ایک الگ سیاسی تشخص دلوانے والے ھمارے عظیم لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح تھے کیونکہ وہ مسلمانوں کے سیاسی وجمہوری حقوق کو یقینی بنانا چاہتے تھے انہون نے پہلے یہ مقصد متحدہ ہندوستان کے پس منظر میں حاصل کرنا چاہا اور جب انہیں یہ ہوتا نہ نظر آیا تو انہوں نے علیحدہ مملکت کی تجویز پیش کی مسلمانوں نے ان کی تجویز کی بھر پور حمایت کی۔

1943میں گاندھی نے کہا میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مسٹر جناح کی پاکستان سے کیا مراد ہے آپ نے برجستہ جواب دیا جب سمجھتے نہیں تو مخالفت کیوں کرتے ہو ؟جب پاکستان کی تحریک زور پکڑ گئی تو گاندھی نے بیان دیا کہ پاکستان سے مراد یہ ہے کہ فرض کرو متحدہ ہندوستان ایک گائے ہے مسٹر جناح کہتے ہیں اس کے دو ٹکڑے کر دو یہ ہے پاکستان اس بات کو سن کر ہندو مشتعل ہو گئے۔

Quaid e Azam

Quaid e Azam

قائد اعظم نے جواب دیا متحدہ ہندوستان ایک گائے ہے جس کے چار تھن ہیں ہم کہتے ہیں کہ تین کا دودھ تم پیئواور ایک کا ہم پیئیں – یہ ہے پاکستان بلا شبہ وہ ایک عظیم لیڈر تھے – ان میں قائدانہ صلاحتیں بدرجہ اتم موجود تھیں تدبر وفراست کا مجسمہ تھے کام کو کرنے سے پہلے اس پر خوب غور فکر کرتے پھر اسے عملی صورت دیتے دنیا میں اس کی مثال کم ملتی ہے کہ کسی سیاستدان کے کردار کو مخالفین بھی سراہتے ہوں سیاست میں غیر متنازع رہنا کمال کی بات ہے اس کے لئے جس بے داغ اور اجلے کردار کی ضرورت ہوتی ہے وہ قربانیوں کے بغیر حاصل نہیں ہوتا آپ نے جب بھی مسلمانوں سے خطاب کیا انہیں ھمت اور پختہ عزم کا سبق دیا بہادری اور سچائی اور مشکلات کے سامنے ہار نہ ماننے کا سبق دیا۔

یہی وجہ تھی کہ آپ کے قول اور فعل میں تاثیر کی وجہ ان کی عملی سچائی تھی – آج بھی ان کے خطابات اور فرمودات کو سنا جائے تووہ زندگی میں ایک نئی روح پھونک دیتے ہیں- ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مملکت کے بانی کی تاریخ ساز شخصیت کو موثر انداز میں نصاب میں لایا جائے تاکہ آنے والی نسلیں بھی ان کے تدبر انتھک جدوجہد سے واقف رہیں اور ان کو رول ماڈل بنائیں 1936 میں قائد اعظم متحدہ ہندوستان میں سب سے زیادہ فیس لینے والے بیرسٹر تھے جن کی ایک روز کی فیس 1500 روپے تھی جب پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنتے ہیں تو اپنی تنخواہ ایک روپیہ مقرر کرتے ہیں-کیونکہ ملک بنانے کے پیچھے ان کو ملک کی دولت لوٹنے کی خواہش نہیں تھی۔

Pakistan

Pakistan

انہوں نے تو مسلمانوں کا ایک تشخص قائم رکھنے کے لئے اسے بنایا تھا اور ہر قیمت پر اس نوزائیدہ مملکت کو مستحکم کرنے کے خواہاں تھے کیا ایسی مثال اب پاکستان کی تاریخ میں ملتی ہے ؟ان کا کردار تو ھمارے آج کے سیاستدانوں کے لئے مشعل راہ ہونا چا ہیے -اللہ کرے کہ پاکستان میں کوئی ان کی سوچ رکھنے والا لیڈر پیدا ہو جائے تاکہ یہ سبز ہلالی پرچم یوں ہی لہراتا رہے اور ملک کی آن اور شان قائم و دائم رہے۔

تحریر : وقار انسا