تحریر : شیخ خالد زاہد ایک بہت ہی مشہور کہاوت ہے چور سے کہو چوری کرے اور شاہ سے کہو جاگتے رہنا۔وطن عزیز پاکستان میں سیاست کے ٹھیکیداروں کا یہی کردار ہے جس کی بدولت باریوں کی سیاست نے جنم لیا ہے یعنی جیتنے والے جیسے بھی انتخابات میں کچھ اکثریت سے جیت گئے ہو ں مگر ہم تم سے ہاتھ ملانے کو تیار ہیں اور وہ اس شرط پر کہ اگلی باری اقتدار ہمیں دلانے میں مددگار بنوگے۔ پاکستان میں جماعتی طرز پر انتخابات ہوتے ہیں اورگزشتہ تین دہائیوں سے دو جماعتیں ہی اس کھیل میں قلیدی کردار ادا کرتی آرہی ہیں، باقی جماعتیں تو خانہ پوری کرنے یاصاحب اقتدار کے حمائتیوں میں اضافہ کرنے کیلئے استعمال ہوتی رہی ہیں۔ اس ہی دور میں وقتاً فوقتاً یہ جماعتیں مختلف بحرانوں سے بھی گزریں مگر ہمارے ملک کے نظام کی بدولت سب کچھ کر کے پھر اقتدار کے مزے لینے ایوانوں میں ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کا تعلق بھی ملک کے دو اہم صوبوں سندھ اور پنجاب سے ہیں یعنی یہ اپنے اپنے صوبوں میں تو حکومت بناتے ہی ہیں، وفاق میں حکومت بنانے کیلئے یہ سارا جوڑتوڑ کیا جاتاہے۔تحریک انصاف وہ سیاسی جماعت ہے جو گزشتہ سالوں میں ایک بڑی سیاسی جماعت کی شکل میں سامنے آئی ہے اور اس جماعت نے پاکستان کی سیاست میں بھوچال پیدا کر رکھا ہے اور اس سیاسی جماعت کی مرہون منت پاکستانی قوم میں بھی کچھ نا کچھ جاگنے کے آثار دیکھائی دے رہے ہیں۔ یعنی اب کہیں جا کہ دوقومی سیاسی جماعتوں سے سیاست آزاد ہوتی دیکھائی دے رہی ہے پاکستانی سیاست کے افق پر ایک نیا ستارانمودار ہونے کو تیار دیکھائی دے رہا ہے۔
پاکستان میں ایسی کئی سیاسی جماعتیں ہیں جن کاجنم اور پرورش ڈکٹیٹر وں کے مرہون منت ہے ، دراصل برطانوی طرز کی سوچ تو ہمارے ذہنوں سے نکلتی ہی نہیں دیکھائی دے رہی ، جن کا بنیاد نقطہ نظر یہی تھا کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو ، یہاں تقسیم کرنے اور ہونے کی بہت ساری دلیلیں پہلے سے ہی موجود ہے ۔ اب جیسے تربیت کرنے والے ہونگے تربیت تو ویسی ہی ہوگی۔ پاکستان میں اب مارشل لاء جیسے نام لینے کی ضرورت ہی نہیں رہی کیونکہ اب ہمارے فوجی بھائیوں کو پہلے ہی اتنے محاظوں کا سامنا ہے کہ انہیں بلاواسطہ حکومت کی ضرورت نہیں رہی۔ ہم پاکستانی فوجی مارشل لاء سے زیادہ اب سول مارشل لاء کو اپنے اوپر مسلط کر چکے ہیں ۔ آپ اپنی سوچ کے گھوڑے کراچی سے پشاور تک دوڑائیے آپ کو یہ بات چیخ چیخ کر اپنی حقیقت سے آگاہ کردے گی۔ پاکستان میں سیاست کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ آپ میں کسی کے کام نا آنے کی بھرپور صلاحیت ہو مگر کسی کا بھی سامنا کرنے کا حوصلہ انتہائی ضروری صفت ہے (ویسے تو یہاں حوصلے کی جگہ جس لفظ کا استعمال ہونا چاہئے وہ آپ سب سمجھ گئے ہیں)، ایک اضافی قابلیت الزام تراشی کرنے کا ہنر بھی خوب آتا ہو تو آپکو کامیاب ہونے سے کوئی روک ہی نہیں سکتا۔ ان سے ملتی جلتی صفات اضافی قابلیت سمجھی جاتی ہے۔
عدالت کو ساری دنیا میں کسی مقدس جگہ سے کم تصور نہیں کیا جاتایہی وہ جگہ ہے جہاں سے ہر خاص و عام کو انصاف ملتا ہے اور انصاف کرنے والے کو منصفکہا جاتا ہے ۔منصف قدرت کی بنائی ہوئی زمین پر حقیقی معنوں میں اللہ کا خلیفہ ہوتا ہے اور اس سے وہ کام لیا جاتا ہے جو قدرت روزمحشر ساری کائناتوں کے ساتھ کرے گی۔ منصف ہی ہے جو زمین پر بسنے والے انسانوں کا مستقبل بناتا ہے یا پھر بگاڑ بھی دیتاہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں انصاف کی ترسیل کا انتہائی فرسودہ نظام رائج ہے اور لوگ سال ہا سال سے اپنے مرحوم آباؤ اجداد کے لئے انصاف کی قطاروں میں نامعلوم وقت سے کھڑے ہیں۔ پاکستان میں انصاف کی بالادستی اور تبدیلی کا عمل جاری ہے اور اس عمل کی ذد میں ملک کے موجودہ وزیر اعظم صاحب اور انکے اہل خانہ آچکے ہیں یعنی انصاف کا اطلاق وہیں سے ہوا ہے جہاں سے ہونا چاہئے تھا۔ اب یہ کام تیزی سے آگے کی جانب بڑھ ریا ہے ۔ عدالتیں کام کر رہی ہیں فیصلے ہورہے ہیں۔ اللہ کے حکم سے اب انصاف ہوتا چلا جائے گا۔
بے خبر اور بے ضرر لوگوں کو انکے حال پر ہی رہنے دیناانکے لئے اور صاحب اقتدار لوگوں کیلئے بہتر ہے، جسکی وجہ روزمرہ کی بدلتی ہوئی اور ناگزیر ہوتی ہوئی ملک کی صورتحال ہے ۔ دیکھاجائے تو ہمارے ملک میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو صبح روزگار کیلئے نکلتے ہیں تو رات گئے بڑی مشکل سے اپنے بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی کما کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔
۲۰۱۸ انتخابات کا سال ہے ۔جیسے جیسے ۲۰۱۸ قریب آتا جا رہا ہے سیاسی گہما گہمی میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، اگرغور کریں تو احساس ہوگا کہ اکتو برکا مہینہ آدھے سے زیادہ گزر چکاہے مگر سردی کسے کہتے ہیں کم از کم کراچی والوں کو تو نہیں پتہ چل رہا اب معلوم نہیں پڑھ رہا کہ یہ اسلام آباد کی گرما گرم سیاست سے کراچی میں گرمی کیوں جانے کا نام نہیں لے رہی۔ اصل میں کراچی میں بظاہر کوئی سیاسی جماعت اپنا اثر و رسوخ واضح نہیں کر پا رہی ۔ جبکہ گزشتہ کچھ دنوں سے پاکستان کے نامور سیاستدان اور سابق صدور کی فہرست میں موجود ، قوم کو اپنے علاوہ دوسرے سیاست دانوں سے ہوشیار رہنے پر زور دیتے دیکھائی اور سنائی بھی دئیے ہیں۔
ہمارے تمام ہی سیاست دان آجکل قوم کو ہوشیار رہنے کی صلح دیتے سنائی دے رہے ہیں ۔ قوم کے خیر خواہ قوم کو دوسرے سیاستدانوں سے ہوشیار رہنے کوکہہ رہے ہیں اور دوسرے ان سے ہوشیار رہنے کو کہہ رہے ہیں۔ آخر قوم کسیے ہوشیار ہوسکتی ہے دن بھر محنت مشقت سے دو وقت کی روٹی کماکر اپنے اہل خانہ کا پیٹ بھرتی ہے ، کسی نا کسی کام کیلئے لائنوں میں لگی رہتی ہے ، قدرتی آفات کا سامنا اپنی جان دیکر یہ قوم کرتی ہے ، سرحد پر گولیاں چلیں تو بھی قوم اپنے سینے پیش کرنے سے نہیں چوکتی، دہشت گردوں کی زد میں بھی قوم ہی آتی ہے اور معلوم نہیں کتنے ہی زندگیاں ان سیاستدانوں کو سیاست دان بنانے میں اپنی بھینٹ دیتی ہے۔آپ زندہ رہتے ہیں تو قوم مشکل میں رہتی ہے اور آپ کی موت بھی قوم کیلئے مشکل کا ہی باعث بنتی ہے ۔ آسان لفظوں میں اتنا سمجھ لیجئے کہ قوم کا تو جینا اور مرنا بے معنی ہے ۔تو خدارا قوم کو ایک دوسرے سے ہوشیار رہنے کا مشورہ یا صلاح نا دیجئے کیونکہ یہ قوم ہوشیار ہوگئی تو پھرآپ خود ہی سوچ اور سمجھ لیجئے کہ اس ہوشیاری سے آپ بھی محفوظ نہیں رہ سکینگے۔