قوم کا غم کرنا یا زبانی دم بھرنا دو مختلف انداز فکر ہیں، محمد یار کموکا

Haroonabad

Haroonabad

ہارون آباد (تحصیل رپورٹر) مسلم لیگ (ن) کے رہنماء و سابق ٹکٹ ہولڈر قومی اسمبلی میاں محمد یار کموکا نے مسلم لیگ اور قائداعظم کے بارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم کا غم کرنا یا زبانی دم بھرنا دو مختلف اندازِفکر ہیں۔جن کو قوم کی فکر ہو وہ اپنی فکر نہیں کرتے ،وہ سمجھتے ہیں کہ میری حیثیت سمندر میں لہر کی ماند ہے اگر سمندر سلامت ہو گا تو میں بھی قائم دائم رہوں گا۔

اگر یہ سوچ بن جائے تو پھر ایسے سمندر میں قومی کشتیاں نہیں ڈوبا کرتی۔ جس کی قیادت ہی اُس کی لہر ہو۔افسوسناک بات تو یہ ہے کہ دنیا کی بہترین فوج ہماری ہے۔ مین پاور اتنی ہے کہ پاکستانی دیگر ملکوں میں بھی اُن کی ترقی میں ہاتھ بٹا رہے ہیں اور خود پاکستان ہے کہ نیچے سے نیچے چلا جارہا ہے۔اُس کی ترقی تو کیا بقا بھی مشکوک لگتی ہے۔ وجہ صرف یہی ہے کہ راہ زن،راہبر بنے رہے۔سابقہ حکمران لوٹ مار میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف رہے۔ موجودہ حکومت سے عوام کی اُمیدیں وابستہ ہیں۔

لیکن بدنصیبی نے اس کو بھی گھیرے میں لے لیا ہے۔حد یہ ہے کہ دھاندلی کے الزام کا جواب نہیں دے سکتی اُلٹا اِس کے اتحادی قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دھاندلی کو تسلیم کرتے رہے۔اب وجہ کیا ہے کہ احتجاجیوں کی بات نہیں سُنی جارہی؟بلکہ اُنہیں توڑ پھوڑ کی طرف مائل کیا جارہا ہے۔

اُن کے جلوسوں کو روک کر یا اُن پر فائرنگ کرکے اُنہیں دہشت گرد بننے پر مجبور کیا جارہا ہے۔کیا ملک میں کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جو فریقین کو بات چیت کی میز پر اکٹھا کرلے۔یہ پاکستان ہے کو ئی قبرستان تو نہیں ۔سب کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے۔اگر ایسا ہی رہا توآئندہ آنے والی نسلیں ہر ادارے کو حصہ رسدی ذمہ دار ٹھہراتی رہیں گی۔اور ملک میں لامتناہی لڑائی جھگڑا شروع رہے گا۔حکومت خود جاگے یا اُس کو جگایاجائے۔

دہشت گردوں سے اگر مذاکرات ہو سکتے ہیںتو احتجاجیوں سے کیوں نہیں؟ قائداعظم نے ہمیشہ مذاکرات سے ہی مخالفین کو قائل کیا اور قلم سے ہی پاکستان بنادیا اور اب ہم ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ایٹم بم کو چھپاتے پھرتے ہیں۔پاکستانی حکومت صرف معاشی معاملات پر سنجیدگی اختیار کرے اور ملک سے باہر سمگل ہونے والی دولت واپس ملک میں آجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان دیگر ترقی یافتہ قوموں کی صف میں نہ کھڑا ہو جائے ۔بس یہی فرق ہے۔قائد اعظم کا اور موجودہ مسلم لیگوں کا۔