پاک بھارت کشیدگی پر پاکستان کی جانب سے بھارت کو امن پیغام دینا ذمہ دار سیاست کا ثبوت ہے کہ ہم امن پسند لوگ ہیں ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو بھارت کو منہ توڑ جواب دینا جانتے ہیں۔عالمی طاقتوں کی کوشش کے باوجود بھارتی جارحیت جاری ہے جس کا ثبوت گزشتہ روز سرحدی حدور کی خلاف ورزی پر پاک فوج کی جانب سے ایک بھارتی جہاز پاکستانی حدود اور ایک بھارتی حدود میں گرا۔جنگی صورت حال میں نہ صرف پاک آرمی کسی بھی قسم کی جارحانہ کاروائی کا بھرپور جواب دینے کے لیے تیار ہے بلکہ عوام کا جذبہ بھی قابل دیدہے۔حکومت اور اپوزیشن ،عوام ،پاک افواج اپنے وطن کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ امریکی ماہر ین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ کئی روز سے سخت کشیدگی دیکھی جارہی ہے جو آج بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی کے بعد کئی گنا بڑھ گئی، دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں جنگ کی صورت میں ہونے والے نقصانات کس قدر تباہ کن ہوں گے؟ سنہ 2007 میں امریکا کی مختلف یونیورسٹیوں کی جانب سیکی جانے والی ایک مشترکہ تحقیق کے مطابق پاک بھارت جنگ میں اگر 100 نیوکلیئر ہتھیاروں کا استعمال کیا جائے (یعنی دونوں ممالک کے مشترکہ نیوکلیائی ہتھیاروں کا نصف)، تو 2 کروڑ21 لاکھ لوگ براہ راست اس کی زد میں آ کر موت کا شکار ہوجائیں گے۔ ہلاکتوں کی یہ تعداد دوسری جنگ عظیم میں ہونے والی ہلاکتوں کی نصف ہے۔
یہ ہلاکتیں صرف پہلے ہفتے میں ہوں گی اور مرنے والے تابکاری اور آتش زدگی کا شکار ہوں گے۔ اوزون کی تہہ غائب ہوجائے گی انٹرنیشنل فزیشن فار دا پریوینشن آف نیوکلیئر وار کی سنہ 2013 میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق پاک بھارت جنگ میں نیوکلیئر ہتھیار استعمال ہوں گے اور یہ ہتھیار دنیا کی نصف اوزون تہہ کو غائب کردیں گے۔ اوزون تہہ زمین کی فضا سے 15 تا 55 کلومیٹر اوپر حفاظتی تہہ ہے جو سورج کی مضر اور تابکار شعاعوں کو زمین پر آنے سے روک دیتی ہے۔ اوزون تہہ کی بربادی سے پوری دنیا کی زراعت شدید طور پر متاثر ہوگی۔
رپورٹ کے مطابق ہتھیاروں کے استعمال سے گاڑھا دھواں پوری زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا جو کئی عشروں تک قائم رہے گا۔ اس دھوئیں کی وجہ سے زمین کی 40 فیصد زراعت ختم ہوجائے گی۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور تابکاری کے باعث زراعت کے متاثر ہونے سے دنیا کے 2 ارب افراد بھوک اور قحط کا شکار ہوجائیں گے۔ برفانی دور جیسے حالات پاک بھارت ممکنہ جنگ میں نیوکلیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد ان کا دھواں زمین کی فضا کے اوپر ایک تہہ بنا لے گا جو سورج کی روشنی کو زمین پر آنے سے روک دے گا۔ یہاں سے زمین پر سرد موسم کا آغاز ہوجائے گا جسے‘نیوکلیئر ونٹر‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت زمین پر آئس ایج یعنی برفانی دور جیسے حالات پیدا ہوجائیں گے۔ یہ موسم بالواسطہ زراعت کو متاثر کرے گا۔ سورج کی حرارت اور روشنی کی عدم موجودگی سے بچی کھچی زراعت میں بھی کمی آتی جائے گی یوں قحط کی صورتحال مزیدخوفناک ہوجائے گی۔
پڑوسی ممالک بھی براہ راست زد میں آئیں گے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا بھارت پر نیوکلیئر حملہ اور بھارت کا پاکستان پر حملہ خود ان کے اپنے علاقوں کو بھی متاثر کرے گا۔ دوسری جانب افغانستان کے سرحدی علاقے بھی ان حملوں سے براہ راست متاثر ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان اور بھارت سے متصل ممالک میں بھی ہلاکتیں ہونے کا خدشہ ہوگا جبکہ تابکاری سے لاکھوں لوگ متاثر ہوں گے۔
مبصر ین کا کہنا ہے کہ سیاسی نظام، اپنے معاشروں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے اور ان کی ترجیحات کو اقتدار میں اپنانے کی حد تک مستقل حیثیت کی ماہیت اختیار کرتے ہیں۔ سیاسی نظاموں کامعاشرتی تقاضوں اور تبدیلیوں کی خصوصیت سے مزین ہونا سماجی مفادات میں اضافہ کرتے ہوئے انہیں تواتر کی حیثیت دلاتا ہے۔ سماجی و معاشرتی ترجیحات اور مطالبات کو نظر انداز کرنے والے اور تبدیلی و تغیرکے سامنے مزاحمت کرنے والے سیاسی نظام چاہے کس قدر بھی طاقتور کیوں نہ ہوں، طویل مدت تک اپنے وجود کو جاری رکھ سکنا نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔سیاسی نظام کے اعتبار سے مسلم امہ سمیت مغرب کے علاوہ کے معاشروں کا بنیادی ترین مسئلہ قوم کی ترجیحات پر سیاسی سطح پر مطلوبہ حد تک عمل درآمد نہ کرنا ہے ویسے بھی ان ممالک میں سیاسی نظام معاشرتی مطالبات کو کافی حد تک پورا کر سکنے کے بنیادی ڈھانچے کا مالک نہیں ہوتا۔ یہ صورتحال کچھ مدت بعد متعلقہ سیاسی نظاموں کے سماج کی جانب سے غیر سرکاری نظام کی حیثیت سے دیکھنے کا موجب بن رہی ہے۔
مغرب کے علاوہ کے معاشروں کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی نظاموں کا اپنے اندر تبدیلیوں اور تغیرات کا موقع فراہم نہ کرنے اور اس بنا پر سیاسی اقتدار میں تبدیلی آنے کا موقع فراہم نہ کرنے پر مبنی ہے۔ اگر کسی سیاسی نظام کو معاشرہ جائز قرار بھی دیتا ہے تو بھی اس میں تبدیلی اور بدلے کے مطالبات اولیت کے معاملات سے ہٹ کر بھی ہو سکتے ہیں۔ ان دونوں صورتحال کا بیک وقت وجود موجود ہو سکنے والے سیاسی نظاموں کو بہترین سیاسی نظام کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے تو اس کا موقع فراہم نہ کرسکنے والے نظام شاید بد ترین نظام ہوں گے۔ ایک جانب سماجی ترجیحات کو مکمل طور پرنظرِ انداز کرنے کے وقت دوسری جانب سیاسی نظام کے اقتدار میں تبدیلی کی اجازت نہ دینے والے نظام، معاشرے کے لیے بھاری نتائج پیدا کرنے والے نظاموں میں شامل ہیں۔
معاشرے کی جانب سے غیر دستوری تصور کردہ اور سیاسی اقتدار میں تبدیلی کا موقع فراہم نہ کرنے والے سیاسی نظاموں کی مثالیں، بھارت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ قوم پر انحصار نہ کرنے والے اور مضبوط قومی ارادے سے عاری سیاسی اقتدار کو اس خلاء اور کمزور ی کو اندرونی و بیرونی دیگر اقتداروں کا تعاون حاصل کرتے ہوئے پورا کرنا پڑتا ہے۔ اندرونی و بیرونی یہ غیر جمہوری ڈھانچے اپنے ذاتی مفادات کو مستقل حیثیت دلانے کے لیے ہر ممکنہ کوششیں صرف کرتے ہیں۔ اقتدار کے آئینی طریقوں کے ذریعے تبدیلیوں کی اجازت نہ دیے جانے کی بنا پر اس قسم کے اقتدار،معاشروں پر اپنے اثرِ رسوخ میں بتدریج اضافہ کرنے والے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوام کی صورتحال میں گراوٹ، اپنے اندر کہیں زیادہ فوجی طاقت پر انحصار کرنے والے، جبکہ بیرونی جانب عالمی سامراجی ممالک کے تعاون سے اپنے پاؤں پر کھڑے رہ سکنے والے اقتدار کی ماہیت اختیار کر لیتے ہیں۔