تحریر : علی عبداللہ امت مسلمہ موجودہ حالات میں نہایت نازک دور سے گذر رہی ہے _ پوری دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا مسلم ملک ہے جہاں مغربی طاقتوں نے اپنا پنجہ نہ گاڑ رکھا ہو _ مغربی ثقافتی یلغار نے میڈیا کے ذریعے اپنی ثقافت اور طور طریقوں سے مسلم امہ کے جوانوں کو عیش پسندی اور بھوک و جنس کا یرغمالی بنا لیا ہے _ اب یہ حال ہے کہ اسلامی دنیا میں کہیں کوئی بھی دل دہلانے والا اور ظالمانہ واقعہ رونما ہو جائے تو کسی کی توجہ نہیں بٹتی _ بے گناہ لوگ مرتے رہیں, عورتیں ظلم و ستم کا شکار ہوتی رہیں لیکن نفس پرستی میں مبتلا امت کے جوانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی _ شام, فلسطین, کشمیر, برما کس کس کا نام لیں جہاں ظلم کی انتہا نہ ہوئی ہو مگر مسلم حکمران و عوام مگرمچھ کے آنسو بہا کر پھر مغربی برانڈ اور فیشن میں گم ہو جاتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے اور پورا مغرب بھی جانتا ہے یہ ,لیکن ہم نظر انداز کیے بیٹھے ہیں اپنے اس ماضی کو جہاں مسلمان ایک جسم کی مانند تھے _ وہ دور جہاں ایک عام شخص کی تکلیف پورا عالم اسلام محسوس کرتا تھا _ عام سے عام مسلم حکمرانوں میں بھی غیرت مند خون دوڑتا تھا اور اپنے بھائیوں کی مشکلات ختم نہ ہونے تک یہ بے چین ہی رہا کرتے تھے۔
معتصم بااللہ جو ایک عورت کی صدا پر سینکڑوں میل دور عموریہ قلعے پر جا چڑھا اور قلعے کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی گئیں صرف اس عورت کی ایک صدا پر جس نے کہا تھا معتصم تم کہاں ہو؟ہماری مدد کون کرے گا؟ اسی طرح حجاج بن یوسف ایک مظلوم کی پکار پر دیبل کو یاد دلاتا ہے کہ مسلم امہ ایک جسم واحد کی مانند ہے جو ایک حصے کی تکلیف کو اپنے باقی پورے جسم میں بھی محسوس کرتی ہے _ اسی طرح بے شمار مثالیں تاریخ کے ماتھے پر عیاں ہیں جس میں مسلم امہ نے اپنے ایک ہونے اور ایک دوسرے کی تکالیف کو محسوس کرنے کا عملی ثبوت دیا۔
Violence on Muslims
بد قسمتی سے اس قابل فخر رواج کو امت مسلمہ بھول بیٹھی ہے اور اب غیر مسلم اس عادت کو اپنا کر امت مسلمہ کا منہ چڑا رہے ہیں _ امریکی ہو یا جرمن, عیسائی ہو یا یہودی ان کے کسی ایک عام سے شہری کو بھی کچھ ہو جائے تو پوری حکومتیں مل بیٹھتی ہیں, منصوبہ بندیاں اور حکمت عملیاں طے کی جاتی ہیں _ اور جب تک اس شہری کو تحفظ نہیں ملتا یہ لوگ کسی ملک پر حملے سے بھی گریز نہیں کرتے _ کسی جگہ پڑھا تھا کہ باطل مٹنے آیا ہے لیکن جب تم دیکھو کہ وہ مسلسل ترقی کی جانب مائل ہے تو سمجھ لو کہ اس نے کوئی حق بات پکڑ لی _ شاید یہی وجہ ہے کہ غیر مسلموں نے امت مسلمہ کی اس شاندار روایت کو نہایت مضبوطی سے تھام رکھا ہے جس کے نتیجے میں عام شہری بھی ان حکمرانوں کے ساتھ مخلص ہیں اور وقت آنے پر اپنی جان بھی دے سکتے ہیں۔
ادھر مسلم امہ کا یہ حال ہے کہ اب مسلم قوتیں کسی بھی مسئلہ میں اقوام متحدہ اور دیگر اداروں میں بس چلاتی ہی رہتی ہیں کہ مسلمانوں پر مظالم رکوائے جائیں _ کمزور سا احتجاج ریکارڈ کروا کر یہ اپنی ذمہ داری سے آزاد ہو جاتے ہیں _ ان سے نہ تو معاشی بائیکاٹ کی توقع کی جا سکتی ہے اور نہ ہی یہ اتنے غیرت مند ثابت ہو رہے ہیں کہ اپنے ملکی وسائل کو زیر استعمال لا کر باطل کو للکار سکیں _باقی رہی عام لوگ کی بات تو وہ اگر براہ راست کچھ نہیں کر سکتے تو ایک دفعہ ہسپتالوں, یتیم خانوں, مہاجر کیمپوں اور جنگ زدہ علاقوں کے بے سہارا لوگوں کا ہی سوچ لیں اور ان کی مختلف طریقوں سے کفالت کر کے مظلوم مسلمانوں کو بے بسی کے احساس سے نکالیں _ بہت دفعہ ایسا ہوا کہ غیروں کو تو امت پر ڈھائے جانے والے مظالم پر ترس آگیا لیکن اپنے پھر بھی اندھے اور بہرے بن کر دنیا پرستی میں مبتلا رہے۔
نجانے وہ وقت کب آئے گا جب امت مسلمہ ایک جسم ہو کر باطل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے ہونگے اور ایک عام مسلمان پر ظلم ایک طاقتور مسلم حکمران پر ظلم تصور کیا جائے گا ۔ اب چونکہ کوئی معتصم نہیں اور نہ ہی حجاج ہے تو کیا امت مسلمہ کے مظلوم بس صدائیں ہی دیتے رہیں گے؟۔