تحریر : قادر خان افغان نیشنل ایکشن پلان کتنا کامیاب ہوا ، کتنا ناکام ہوا ؟۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کی مطابق عمل ہوا ہے کہ نہیں ہوا۔ پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ایک ایسے عفریت میں جکڑا ہوا ہے ، جس سے آزادی کیلئے پاکستان کے تمام اداروں کو مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن جب ایک غیر جانب دارانہ تجزیہ کیا جائے تو نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر مکمل عمل درآمدنہ ہونے کا مایوس کن نتیجہ سامنے آتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک نے نیشنل ایکشن پلان بنایا اور اس کو کامیاب بنانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے ۔ لیکن پاکستان اس معاملے میں مکمل طور پر کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔ اگر اس کی اصل وجوہات کو سامنے رکھا جائے تو واضح طور پر یہی نظر آتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی کا واویلا کرنے والی جماعتیں ہی ، نیشنل ایکشن پلان کے مکمل کامیابی میں عدم تعاون کے ذمے دار قرار پاتی ہیں۔ قبائلی علاقوں میں عسکری افواج نے انتہا پسندوں کے خلاف جارحانہ آپریشن کیا ، انتہا پسندوں کے خلاف بھرپور کاروائی کیلئے لاکھوں نفوس کو اپنے علاقے چھوڑنے پڑے۔
ان علاقوں پر فضائی بمباری سے لیکر تمام زمینی حربی وسائل کا استعمال کیا گیا ۔ آئی ڈی پیز کی واپسی کا عمل ابھی تک مکمل نہیں ہوا ۔ فوج آج بھی قبائلی علاقوں میں ہے ، بلکہ سوات ،ملاکنڈ ڈویژن میں امن کے مکمل مراحل کامیابی سے حاصل کرنے کے باوجود فوج کا زمانہِ امن کے مطابق انخلا نہیں ہوسکا ۔یہاں تک کہ سوات جرگہ نے فوج کی واپسی کا مطالبہ بھی کرڈالا۔ اسی طرح شمالی وزیر ستان ، سمیت تمام قبائلی علاقوں میں عسکری فوج نے اپنے تمام اہداف کو کامیابی سے حاصل کرنے کا اعلان کیا ۔لیکن افغانستان کے عدم تعاون کی وجہ سے علاقے مستحکم امن کیلئے کلیئر نہیں ہیں ، لاکھوں آئی ڈی پیز کئی بار مظاہرے کرچکے ہیں اور واپسی کے منتظر ہیں۔ عسکری آپریشن میں اے پی ایس سانحے کے تمام دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا ، لیکن چیف آف آرمی اسٹاف کے مطابق زخم کافی گہرا ہے ، ایسے بھرنے میں وقت لگے گا۔
اے پی ایس سانحے کے بعد اس عہد کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان کو جارحانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھاکہ ملک کے کسی بھی حصے میں موجود انتہا پسندوں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے گا ۔ فوجی عدالتوں نے مقدمات کے جلد فیصلے بھی کئے ، پھانسیاں بھی دیں گئیں، آئین کے تحت دو سال کیلئے فوجی عدالتیں بنا ئی گئیں جن کو گیارہ ہزار مقدمات ارسال کرنے تھے ، لیکن مجموعی طور پر فوجی عدالتوں کو مکمل طور پر فعال نہیں کیا گیا ، صرف چند مقدمات حکومت نے بھیجے ، جن پر انھوں نے فوری فیصلے دیئے ،فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہوچکی ، لیکن آئینی غلطی قرار دینے والوں نے دوبارہ ایسے آئینی تحفظ نہیں ، اس کے مقابلے میں انسداد دہشت گرد ی کے تحت قائم عدالتوں سمیت عدلیہ میں لاکھوں کی تعداد میں زیر التوا مقدمات کے سبب خصوصی طور پر اُن دہشت گردوں کے خلاف فیصلوں پر عمل درآمد نظر نہیں آیا ، جنھیں نیشنل ایکشن پلان کے بعد کراچی اور بلوچستان سے گرفتار کیا گیا۔
PPP and MQM
کراچی میں نیشنل ایکشن پلان پر بھرپور عمل درآمد نظر آیا ہے ، لیکن بڑے مگر مچھ ابھی تک اپنی پناہ گاہوں میں محفوظ ہیں ، ایم کیو ایم اور پی پی پی نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ ہونے اور اپنے خلاف استعمال کئے جانے کے الزامات عائد کئے۔گو کہ کراچی میں ماضی کی طرح دہشت گردوں کی کاروائیاں نہیں ہیں ، لیکن وفاقی حکومت کی واضح پالیسی سامنے نہ آنے کی وجہ سے عوام کی اذہان میں بے یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ پاکستان کی سا لمیت کے خلاف تقاریر کرنے والے ، اور بھارت کی دہشت گرد ایجنسی ‘ را ‘کے لئے کام کرنے والوں کے خلاف حکومت نے مربوط کوئی قدم نہیں اٹھایا۔متحدہ قومی موومنٹ کی تقسیم تو ہو گئی ، لیکن چار دھڑوں میں ہونے کے باوجود عوام میں بے یقینی کی کیفیت برقرار ہے ، جہاں ایک طرف پاکستان مخالف لابی کے خلاف عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا تو دوسری جانب صوبائی حکمراں جماعت کی کرپشن کے خلاف کاروائی پر وفاق اور صوبے میں اختیارات کے معاملے پر تصادم کی کیفیت برقرار ہے ۔ وزیر سندھ کے ساتھ ساتھ گورنر سندھ کو چار و ناچار رخصت ہونا پڑا۔
موجودہ حالات میں ایک مصنوعی تحفظ پایا جاتا ہے۔ عوام میں خود اعتماد ی کی کمی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ کراچی میں پکڑے جانے والے دہشت گرد ، جیلوں میں بی کلاس لیکر خود کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں ، ضرورت تو اس بات کی تھی کہ فوری طور پر ان کے خلاف خصوصی عدالتیں بنا کر فوری کیس چلائے جاتے ، لیکن خصوصی عدالتیں قائم نہ ہوسکیں اور ان دہشت گردوں کے خلاف فوجی عدالتوں کی طرح جلد فیصلے سامنے نہیں آسکے۔ نیشنل ایکشن پلان کا بنیادی نقطہ ، دہشت گردوں ، انتہا پسندوں کو ہونے والی فنڈنگ کو بھی روکے جانا تھا ، لیکن جس طرح کالعدم جماعتوں کو نام بدل کر کام کرنے کی اجازت دی گئی ، اسی طرح فنڈنگ اور سہولت کاروں نے بھی سیاسی فائدہ اٹھا یا۔ نیشنل ایکشن پلان کو مکمل سیاسی بنا دیا گیا ۔پی پی پی نے ایسے اپنے خلاف سمجھا ۔تو ایم کیو ایم نے اپنے خلاف سازش قرار دی، اسی طرح مدارس اصلاحات کے حوالے سے مذہبی جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان کو اپنے خلاف منصوبہ قرار دیا۔
3سالوں میں نیکٹا کی ایک بھی میٹنگ نہیں ہوسکی، ملک کی30انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ایک صفحے پر نہیں لایا جاسکا ، تمام تر اطلاعات کے باوجود جس طرح کوئٹہ پولیس ہیڈ کوارٹر سانحہ ہوا ، وہ ظاہر کرتا ہے کہ حساس اطلاعات کو صوبائی حکومتیں سنجیدگی سے نہیں لیتیں۔نیشنل ایکشن پلان کے20نکات کی نگرانی و عمل درآمد پر نظر رکھنے کیلئے وزیر اعظم نے 26دسمبر2014کو اپنی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی ، جس میں وزیر داخلہ ، وزیر دفاع ، وزیر اطلاعات، وزیر منصوبہ بندی اور مشیر خارجہ ممبران مقرر کئے گئے ، لیکن اس کمیٹی کے ماسوائے ایک نمائشی اجلاس کے بعد مزید کسی اجلاس کی کوئی خبر نہیں ہے۔
Pakistan
پاکستان کے اندر کوئی پانچ ٹکڑے ہونے کا خواب دیکھ رہا ہے تو پاکستان کے باہر بھارت پاکستان کو دس ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔کوئی خیبر پختونخوا افغانستان کے حوالے کرنے کی زہر افشانی کررہا ہے تو کہیں ، افغان مہاجرین کو مستقل شہریت دینے کے علی اعلان مطالبہ کررہے ہیں۔یہ سمجھ نہیں آتا کہ جب بات بھارت کی ہو کہ وہ کہے کہ وہ پاکستان کی دس ٹکڑے کردے گا تو پاکستان کو پانچ ٹکڑوں کے خواب دیکھنے اور پاکستان کی سرزمین کو افغانستان کی سر زمین قرار دینے والوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔میڈیا میںکالعدم جماعتوں کے بیانات و جلسوں کو بھرپور کوریج دی جاتی ہے ، تو دوسری جانب ‘سیاہ ست دانوں’ نے فوج کو متنازعہ بنانے کیلئے نیوز گیٹ جیسے اسکینڈل بھی پیدا کئے ۔ انسداد دہشت گردی فورس کا قیام پرسندھ او خیبر پختونخوا میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔اسٹیٹ بنک نے دہشت گرد تنظیموں کے دس ارب روپوں کے اکائونٹ منجمد کئے ، منی لانڈرنگ کے تحت ایف آئی اے نے بھی مقدمات درج کئے ، لیکن بات پھر وہیں پر آکر رک جاتی ہے کہ جس طرح ایان علی کا کیس منی لانڈرنگ کے حوالے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا کیس تھا ، اس کو بھی سیاسی بنادیا گیا۔
اسی سیاست میں جن دہشت گرد تنظیموں کے اکائونٹ منجمد کئے گئے تو ایسی کئی کالعدم جماعتیں اور ان کے سہولت کار ہیں جن کے اربوں کھربوں روپیہ اب بھی پاکستانی بنکوں میں ، ان کے زیر استعمال ہے۔جب حکومت کی ترجٰیحات میں نیشنل ایکشن پلان کو کامیاب بنانا شامل نہ ہو تو نیکٹا کو موثر بنانے کیلئے وزیر خزانہ کے پاس 21ارب نہیں ہیں ، لیکن اورینج ٹرین کیلئے160ارب روپے ،میٹرو کیلئے70ارب روپے اور کسان پیکچ کیلئے300ارب روپے فوری مہیا کرنے کیلئے ضرور موجود ہیں ۔پاک فوج کے ذمے جو ذمے داریاں تھیں ، انھوں نے کماحقہ اس کو استعمال کیا ، جس کے نتیجے میں روزانہ کی بنیاد پر بڑے بڑے دہشت گردی کے واقعات کا خاتمہ ممکن ہوا ، دہشت گردوں نے پڑوسی ممالک میں پناہ لیکر سافٹ اہداف پر دہشت گردی کی وارداتیں کیں ، جس کی مثال’ شاہ نوارنی درگاہ’ یا ‘پولیس ہیڈ کوارٹر کوئٹہ’ ہیں۔
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں نمایاں کمی ہوئی ، را ، بلیک واٹر ، موساد ، این ڈی ایس کے نیٹ ورک کو توڑا گیا ، لیکن اس عمل کو مستقل بنیادوں پر قائم رکھنے کیلئے صوبوں کو سنجیدگی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ، جس پر بد قسمتی سے سیاسی صوبائی حکومتوں نے مکمل عمل درآمد نہیں کیا جارہا۔ موجودہ نیشنل ایکشن پلان کی مثال اس وقت ایک ریت کی دیوار کی طرح ، جس کو سمندر کی ایک تیز لہر کسی بھی وقت بہا کر لے جاسکتی ہے۔صوبائی حکومتیں امن کے اس وقفے کو وقت گذارنے کے بجائے، آہنی دیوار بنانے کے لئے اپنا کردار ذمے داری سے ادا کریں، تو مستقل کامیابی کی امید روشن نظر آئے گی ، اور نتائج کے ذمے داروں کا تعین بھی ممکن ہوسکے گا۔