پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار احمد نے فرمایا کہ باہر ایک پارٹی نے تماشا لگا رکھا ہے۔ اُن کا اشارہ واضح طور پر تحریکِ انصاف کی طرف تھا، اِسکے باوجود بھی پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ صاحب کو چونکہ ”اوپر سے ”حکم آچکا تھا کہ بائیکاٹ کرنا ہی کرنا ہے اِس لیے اُنہوں نے ”کیہڑاتے کیہڑا سہی”کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے شور مچا دیا کہ اپوزیشن کی توہین ہو گئی ہے اورشدید ترین توہین کے ہاتھوں بے حال اپوزیشن اسمبلی کی کارروائی میں مزید حصّہ لینے سے قاصر ہے۔ چوہدری نثار چیختے رہ گئے لیکن اپوزیشن اجلاس سے ایسے غائب ہوئی جیسے گدھے کے سَر سے سینگ۔اسمبلی سے باہر جا کر اپوزیشن نے الیکٹرا نک میڈیا کو ”شکایت” بھی لگائی اور داد رسی کی طالب بھی ہوئی ۔اُس دِن بہت عرصے بعد شاہ محمود قریشی اور سیّد خورشید شاہ ایک دوسرے کے پہلو میں کھڑے ہو کر نواز لیگ کویہ پیغام دے گئے کہ اب یہاں کوئی ”فرینڈلی اپوزیشن” نہیں۔
یہ تو خیر سب سیاسی باتیں تھیں لیکن ہماری توساری باتیں ہی غیر سیاسی ہوتی ہیں۔ وجہ یہ کہ ہم سیاست کی الف ، بے سے واقف ہیں نہ ہمیں اِس سے کچھ لینا دینا ۔ہم تو اتنا بھی نہیں جانتے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران 35لاکھ روپے فی گھنٹہ صرف ہوتے ہیں اور نہ یہ جانتے ہیں کہ اسمبلی کے باہر ”تماشا” کرنے والوں کو بھی ٹی۔اے ، ڈی۔اے ملتا ہے ۔ہماری معصومیت کا تو یہ عالم ہے کہ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ ساری رقم ہمارے ہی خون سے نچوڑی جاتی ہے۔لیکن دِل خوش کُن خبر یہ ہے کہ روٹی کپڑا اور مکان دینے اور 90 دن میں ملک کی تقدیر بدلنے والے ایک ہو گئے ہیں ۔اب روٹی ، کپڑا اورمکان بھی ملنے لگے گا اور کرپشن کے مگر مچھوں کے دانت بھی توڑ دیئے جائیں گے لیکن ایسا تبھی ہو گا جب ملک کی تقدیر بدلنے کا دعویٰ کرنے والوں کے پیٹ بھرے اور” توندیں ”باہر نکلی ہوں۔ یہ کام ہمارے عظیم لیڈر محترم عمران خاں کی زیرِ نگرانی خیبر پختونخواہ میں شروع کر دیا گیا ہے اور پہلے مرحلے میں وزراء کے ہاؤس رینٹ میں 15 ہزار ماہانہ کا اضافہ کر دیا گیا۔
اب وزراء کو 40 کی بجائے 55 ہزار ہاؤس رینٹ ملا کرے گا اور شنید ہے کہ وزراء کی تنخواہیں بھی ”ڈَبل”کی جا رہی ہیں اِس لیے کچھ اُمید پیدا ہو چلی ہے کہ اعتزاز احسن نہ سہی ،محترم عمران خاں ضرور” دھرتی کو ماں کے جیسی ”بنا کر ہی دَم لیں گے۔ جب ہمارے مہربانوں نے چوہدری نثار صاحب کے لفظ ”تماشا” پر طوفان کھڑا کیا تو ہمارے بھی کان کھڑے ہو گئے کیونکہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ لفظ ”تماشا” غیر پارلیمانی ہے ۔ہم نے ”شرمناک” کو تو ہمیشہ غیر پارلیمانی ہی سمجھا لیکن جب سے ہماری اعلیٰ عدلیہ نے اِس لفظ کے ”پارلیمانی” ہونے پر مہر ِ تصدیق ثبت کی ہے ، ہم اِس لفظ کا جا وبے جا روانی سے استعمال کرنے لگے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ اِس لفظ کے استعمال کے بعد ہم کئی دفعہ ”کُٹ” کھانے سے بال بال بچے ۔البتہ ”تماشا” کو تو ہم نے کبھی بھی اتنا خطرناک نہیں سمجھا جتنا خورشید شاہ صاحب نے بنا دیا ہے ۔شاہ صاحب کے احتجاج کے بعدہمیں مرزا غالب پر رہ رہ کر غصّہ آرہا ہے جنہوں نے یہ لکھ کر ہمیں کنفیوز کر دیا کہ
بازیچۂ اطفال ہے دُنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
National Assembly
اور ہم یہ سمجھ بیٹھے کہ چونکہ غالب نے یہ لفظ استعمال کیا ہے اِس لیے اچھّا ہی ہو گا۔ وہ توشکر ہے کہ چوہدری نثار نے معافی مانگنے کی بجائے قومی اسمبلی کے سابقہ تمام اجلاسوں کی کارروائی نکال کر یہ ثابت کر دیا کہ یہ لفظ قومی اسمبلی میں سینکڑوں بار استعمال ہو چکا ہے اور اسے کبھی غیر پارلیمانی نہیں سمجھا گیا وگرنہ ہم تو مارے ندامت کے مُنہ چھپائے بیٹھے تھے۔
یوں لگتا ہے کہ جیسے ہماری پارلیمنٹ کچھ زیادہ ہی حساس ہو گئی ہے۔ پہلے تو پارلیمنٹ میں فقرے بھی چُست کیے جاتے، نوبت گالی گلوچ تک بھی پہنچ جاتی تھی اورکبھی کبھی توجوتے بھی چَل جاتے تھے۔ خیر یہ اچھّا ہی ہے کہ ہماری پارلیمنٹ میں بھی ”لکھنویت” آتی جا رہی ہے اور شاید اسی بنا پر ہماری ”لکھنوی مزاج” اپوزیشن لفظ تماشاپر بُرا مان گئی ہے ۔ویسے ہماری پارلیمنٹ چونکہ اکثر ”ویہلی” ہی بیٹھی رہتی ہے اِس لیے فُرصت کے لمحات میں اگر وہ شیخ رشید صاحب اور اداکارہ میرا کے بیانات پر بحث کر لیا کرے تو اچھّے ”ٹائم پاس” کی گارنٹی ہم دیتے ہیں۔شیخ صاحب تو خیر اکثرفرماتے ہی رہتے ہیں لیکن اداکارہ میرا کے انکشاف نے تو پاکستان کی تاریخ ہی بدل ڈالی ۔وہ کہتی ہے” علامہ اقبال نے سنجیدگی سے سوچا اور قومی ترانہ لکھ دیا”۔اس تاریخی انکشاف پر بحث تو بنتی ہے دوستو۔دروغ بَر گردنِ راوی، اداکارہ میرا نے کسی اور جگہ یہ بھی کہا تھا کہ قائدِ اعظم نے پاکستان بنایا اور محمد علی جناح نے اُن کا بھر پور ساتھ دیا ۔۔۔۔ بحث تو اِس پر بھی بنتی ہے لیکن وہ جو”میرا” نے خادمِ اعلیٰ سے ہسپتال کے لیے 10 ایکڑ زمین مانگی ہے ، اُس پر بحث ہر گز نہیں بنتی کیونکہ اب خادمِ اعلیٰ نے زمینیں بانٹنا بند کر دی ہیں۔
دراصل خادمِ اعلیٰ ، عمران خاں صاحب کو ہسپتال کے لیے اور ڈاکٹر طاہر القادری کو منہاج القُرآن کے لیے سینکڑوں کنال زمین دے کر اپنے احسانوں کا مزہ چکھ چکے ہیں اور اب مزید احسانات سے اُنہوں نے توبہ کر لی ہے۔ بات تماشے سے شروع ہوئی لیکن نکل کسی اور طرف گئی ۔ دراصل آجکل مہنگائی نے اتنی ”مَت” ماری ہوئی ہے کہ کہناکچھ چاہتے ہیں لیکن زبان و قلم سے نکلتا کچھ اور ہے ۔اِس لیے آرزو یہی ہے کہ
بَک ”رہی” ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے ، خُدا کرے کوئی
کالم نویسوں کو لگ بھگ ڈیڑھ ہزار روزانہ ای۔میلز بھیج کر تماشا لگانے والے ”صاحب”کو چونکہ ہمارے کالموںپر ”ڈُگڈگی”بجانے کا بہت شوق ہے اِس لیے حفظِ ما تقدم کے طور پر کہے دیتے ہیں کہ ہم نے حسبِ ضرورت ”رہا”کو ”رہی” میں بدل دیا ہے ۔ویسے دست بستہ عرض ہے کہ کیا یہ ”محترم” اتنے ہی ”ویہلے” ہیں کہ اُنہیں سوائے ای۔میلز بھیجنے کے اور کوئی کام ہی نہیں ؟۔ اگر اُنہیںایسا کرنے سے سکون ملتا ہے تو پھر ”لگے رہو مُنّا بھائی” ۔ایسا ہم کوئی اُن کے سکون کی خاطر نہیں کہہ رہے بلکہ ہمارا مطمعٔ نظریہ ہے کہ اُن کی اِس جنوں خیزی کے ہاتھوں کالم نویسوں کے جذبات مجروح ہوں تو ہوں ، کم از کم باقی خلقِ خُدا تو محفوظ رہے۔ پیشگی معذرت کے ساتھ خدمتِ عالیہ میں عرض ہے کہ
گرمی سہی کلام میں، لیکن نہ اِس قدر کی جس سے بات، اُس نے شکایت ضرور کی
اور ایک آخری بات کہ میرے پاس ”سستی شہرت” (جسے موصوف کی محبوب زبان میں ”Cheap popularity”بھی کہتے ہیں) حاصل کرنے کے ایک سو ایک نسخے ہیں ۔ اگرمحترم پسند فرمائیں تو ای۔میل کر دوں ۔۔۔؟؟۔ اور آخری کے بعد ایک اور آخری بات یہ کہ موصوف چہرے مُہرے سے تو بہت” نفیس اور جینئس” لگتے ہیں لیکن” مشتری ہوشیار باش” ۔۔۔ چہرے سے دھوکہ مَت کھائیے ، مایوسی ہو گی ۔۔۔ کیونکہ موصوف اپنی تمام ترصلاحیتیں صرف ”تماشا لگانے” میں صرف کر رہے ہیں۔