اسلام آباد (جیوڈیسک) قومی اسمبلی میں تحفظ پاکستان ترمیمی بل 2014ء منظور کر لیا گیا ہے۔ بل کے تحت سزا یافتہ شخص کو ملک کی کسی بھی جیل میں رکھا جا سکے گا۔ دہشتگردوں کا جلد ٹرائل کیا جائے گا۔ دہشتگردوں کیخلاف مقدمات کی سماعت کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی جبکہ دہشتگردوں کیخلاف مقدمات کی تفتیش مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کرے گی۔
تحفظ پاکستان بل 2013ء ترمیم کے ساتھ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔ اپوزیشن ارکان نے تحفظ پاکستان بل 2014ء کے خِلاف بھرپور احتجاج کیا اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ شور شرابے میں حکومت نے بل قومی اسمبلی سے کثرت رائے سے منظور کرا لیا۔ حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) نے بھی مخالفت کی۔
اپوزیشن ارکان نے سپیکر ڈائس کے سامنے بھرپور احتجاج کیا اور اسے گھیرے میں لے لیا تاہم حکومتی ارکان ڈائس اور اپوزیشن ارکان کے درمیان کھڑے ہو گئے. قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی زاہد حامد نے تحفظ پاکستان بل 2013ء ترمیم کے ساتھ پیش کیا تو اپوزیشن جماعتوں نے شدید مخالفت کی۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ یہ ایک اہم بل ہے اس پر مشاورت کی جائے اور کل پیش کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحفظ پاکستان سے متعلق دونوں بلوں میں کئی شقیں آئین کے خلاف ہیں۔ جلد بازی میں یہاں سے بل پاس بھی ہو جائے گا تو سینیٹ سے پاس نہیں ہو سکتا۔ اس بل میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لامحدود اختیارات دیئے جا رہے ہیں۔ وہ گڈ فیتھ کے نام پر کسی کو بھی مار سکتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ ہم ماضی میں اس طرح انسداد دہشتگردی کا بل پاس کرکے دیتے تو میاں صاحب ملک بدر بھی نہیں ہو سکتے تھے۔ یہ بل 10 فیصدارکان اسمبلی نے پڑھا ہو گا۔
حکومت اس پر نظر ثانی کرے۔ ہم اپوزیشن سے مشاورت کر کے بل پیش کیا کرتے تھے۔ تحفظ پاکستان بل کے دوررس اور بھیانک نتائج ہونگے۔ ایم کیو ایم کے فاروق ستار نے کہا کہ تحفظ پاکستان بل قبول نہیں، یہ خوفناک اور ماورائے آئین ہے۔ یہ بل بنیادی انسانی حقوق کی نفی ہے۔ یہ بل کس کے خلاف استعمال کرنے جا رہے ہیں، بتایا جائے۔
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ 90 روز قید میں رکھنے کی شق کالا قانون ہے۔ پی پی او کسی طالبان یا دہشتگرد پر 240 دنوں میں لاگو نہیں ہوا۔ پی پی او کے تحت ایم کیو ایم کے 45 کارکن حراست میں ہیں۔ طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
تحریک انصاف کے رہنماء شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پی پی او کے خلاف پوری اپوزیشن متحد ہے۔ موجودہ شکل میں اس کے بھیانک نتائج ہوں گے۔ حکومت اس پر نظر ثانی کرے، جلد بازی نہ کی جائے یہ گلے پڑ سکتا ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی بل کی مخالفت کی۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا کہ پی پی او کے دونوں بلوں پر اپوزیشن کی تمام جماعتوں سے مشاورت کے بعد ان کی کئی ترامیم بھی بل میں شامل کر لی ہیں پھر کیوں مخالف کی جا رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں سروسز ٹریبونل ترمیمی بل 2013ء پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی۔
رپورٹ میں مسلم لیگ (ن) کے منشور کا ذکر کرنے پر پیپلز پارٹی نے اعتراض کیا۔ نفیسہ شاہ نے کہا کہ رپورٹ میں صرف ایک پارٹی کے منشور کا ہی کیوں ذکر کیا گیا۔ ایوان نے سروس ٹریبونلز ترمیمی بل 2013ء کی بھی منظوری دے دی ہے۔