حلقہ این اے 120 کے نتیجے سے کیا ہو گا

Vote

Vote

تحریر : چودھری عبدالقیوم
مکرمی؛ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 میں سترہ ستمبر کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کی امیدوار بیگم کلثوم نواز 61 ہزار 745 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوگئی ہیں ان کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد47ہزار99ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہیں ۔یہ سیٹ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو سپریم کورٹ سے نااہل قرا دئیے جانے کے بعد خالی ہوئی تھی جسے مسلم لیگ ن ایک بڑے معرکے کے بعد اپنی نشست بچانے میں کامیاب ہوئی۔ محترمہ کلثوم نواز کے مقابلے میں تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد،پیپلزپارٹی کے فیصل میر، محمدیعقوب شیخ آزاد اُمیدوار اور دیگر 43 امیدوار مدمقابل تھے۔

اصل مقابلہ بیگم کلثوم نواز اور ڈاکٹر یاسمین ارشد کے درمیان رہاجو 2013ء کے عام انتخابات میں بھی میاں نوازشریف کے مقابلے میں امیدوار تھیںباقی امیدوار اپنی ضمانت بچانے میں بھی بری طرح ناکام ہوئے 2013ء کے عام انتخابات میںمیاں نوازشریف 91 ہزار نو سو چھیاسٹھ ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جبکہ ڈاکٹریاسمین راشد کو 52 ہزار تین سو اکیس ووٹ ملے تھے۔اس طرح میاں نواز شریف تقریبا چالیس ہزار ووٹوں کی لیڈ سے جیتے تھے اب ضمنی الیکشن میں بیگم کلثوم کی جیت کامارجن کم ہوکر 14ہزار رہ گیا ۔اس طرح دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کی جیت کے باوجود اس کے ووٹ کم ہوئے ہیں حالانکہ مرکز اور پنجاب میں حکومت بدستور مسلم لیگ ن کی ہے اور بیگم کلثوم نواز کوپوری حکومتی مشینری کی سپورٹ حاصل تھی۔اس کے باوجود مسلم لیگ ن کو اپنی نشست بچانے میں بڑی مشکل پیش آئی۔ این اے 120کے نتیجے سے مسلم لیگ ن کو ایک ڈھارس ضرور ملی ہے اس سے ملک کی سیاست میں کیا تبدیلی آتی ہے کیا اس نتیجے سے مسلم لیگ ن کی مشکلات کم ہوسکیں گی اور کیا اب سپریم کورٹ سے نااہل وزیراعظم نوازشریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز وزیراعظم بن سکے گی اور میاں نواز شریف پاکستان واپس آئیں گے کہ نہیں۔ اس کا اندازہ رواں مہینے کے دوران ہی ہوجائے گا ۔

یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ ضمنی الیکشن میں مریم نواز نے اپنی والدہ کی الیکشن مہم پورے جوش و خروش کیساتھ چلائی جبکہ ڈاکٹر یاسمین راشد کی انتحابی مہم میں ان کا جذبہ اور مردانہ وار کام کرنا قابل تعریف رہاانھوں نے ثابت کردیا کہ وہ ایک اچھی سیاستدان ہیں اور ماضی قریب میں وہ کامیابی سے ہمکنار ہونگی۔مریم نواز نے اپنی الیکشن مہم میں عدلیہ کو نشانہ بنائے رکھا جسے عمومی طور پرپسند نہیں کیا جاسکتا اور یہ رویہ نقصان دہ بھی ہے ۔حلقہ این اے 120 کے نتیجے سے مسلم لیگ ن کی طاقت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا اور نہ ہی تحریک انصاف کو کوئی نقصان ہوگا البتہ اس سے سیاست کا رُخ متعین ہوگا خاص طور پر مسلم لیگ ن بیگم کلثوم نواز کو وزیراعظم بناتی ہے یا شاہد خاقان عباسی سے ہی کام چلاتی ہے زیادہ امکان یہی ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو نہیں ہٹایا جائے گا کیونکہ ان حالات میں اگر مسلم لیگ ن بیگم کلثوم نواز کو وزیراعظم بنانے کی کوشش کرتی ہے تو اس سے پارٹی کے اندر ایک نیا پنڈورا بکس کھلے گا جس سے اختلافات بھی سامنے آسکتے ہیں ویسے بھی ابھی کلثوم نواز لندن میں زیرعلاج ہیں اور ابھی تک انکی وطن واپسی کا کوئی پروگرام سامنے آرہا ۔اس لیے مسلم لیگ ن کے سنجیدہ قائدین کی یہ کوشش ہوگی کہ اب جب کہ آیندہ عام انتخابات قریب ہیں اس لیے ایسے حالات میں وزیراعظم کی تبدیلی کا کھیل نبہ ہی شروع کیا جائے۔

بحرحال اس بارے میں تمام صورتحال جلد واضح ہو جائیگی دوسری طرف نیب کیطرف سے سپریم کورٹ کی ہدایات اور احکامات کی روشنی میں نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف،ان کے بیٹوںسمیت وزیرخزانہ اسحاق ڈار کیخلاف بھی ریفرنس دائر کردئیے ہیں آثار بتاتے ہیں میاں نوازشریف فیملی نیب میں پیش نہیں ہوگی اس سے بھی ایک نئی سیاسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں شریف فیملی کے لیے مزید مشکلات پیدا ہونگی جو آگے چل کر شریف خاندان کی سیاست کے لیے بھی کسی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگی جس سے شریف خاندان اور مسلم لیگ ن کے اندر اختلاف بھی پید ہوسکتے ہیں کچھ سیاسی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اپنے سیاسی مستقبل کو بچانے کے لیے اپنے بڑے بھائی میاں نوازشریف کی سیاست سے اپنی راہیں جدا کرسکتے ہیں۔اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے میاں نواز شریف کے سیاست سے مکمل آئوٹ ہونے اور مسلم لیگ ن کی تقسیم یا گروپ بندی کا امکان ہے ۔کیا ہوتا ہے سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کے لیے ماہ ستمبر کے دوران ہی کئی اہم فیصلے ہونے کا بہت زیادہ امکان ہے جن کے نتیجے میں ملک کی آئندہ سیاست کا منظر نامہ واضح ہونا شروع ہو جائیگا۔اس کے لیے تھوڑا انتظار کرنا ہو گا۔

Abdul Qayum

Abdul Qayum

تحریر : چودھری عبدالقیوم