اسلام آباد (جیوڈیسک) قومی اسمبلی نے پیپلز پارٹی کا الیکشن ایکٹ ترمیمی بل مسترد کر دیا، یہ بل کسی بھی نااہل شخص کو سیاسی جماعت کا سربراہ بننے سے روکنے کیلئے نوید قمر کی جانب سے جمع کرایا گیا تھا۔
قومی اسمبلی میں ترمیمی بل پر ووٹنگ کے دوران ارکان اسمبلی کو کھڑا کرکے گنتی کی گئی۔ اپوزیشن ممبران کیساتھ ظفر اللہ جمالی بھی کھڑے ہو گئے۔ سپیکر نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ 98 ممبران نے بل کے حق میں ووٹ دیا۔ 163 ممبران نے مخالفت کی۔ اجلاس کے دوران اعتراض اٹھاتے ہوئے نوید قمر نے ووٹوں کے طریقہ کار کو چیلنج کر دیا۔
واضح رہے کہ 2 اکتوبر کو حکومت کو 172 ووٹ ملے تھے۔ آج 163 ووٹ ملے۔ 2 اکتوبر کو اپوزیشن کو 77 ووٹ ملے تھے جبکہ آج 98 ووٹ ملے ہیں۔ اس طرح حکومت کے 9 ووٹ کم ہو گئے ہیں جبکہ اپوزیشن کے 21 ووٹ بڑھ گئے ہیں۔
اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں کئی انفرادی ترامیم بھی ہوئی ہیں، جو شخص نااہل ہو چکا ہو وہ باہر بیٹھ کر پالیسی ڈکٹیٹ کر رہا ہو تو مناسب بات نہیں، الیکشن ایکٹ میں مزید ترامیم بھی ہوئی ہیں، نااہل شخص کسی پارٹی کا سربراہ بن کر ایوان سے باہر سے پالسیی ڈکٹیٹ کرے، یہ مناسب نہیں، یہ آرٹیکل 62،63 کے منافی ہے۔
سید نوید قمر کے بل پیش کرنے کے بعد وزیر قانون زاہد حامد نے ان کے بل کو مسترد کر دیا جس کے بعد اپنے دھواں دار خطاب میں رہنماء پی ٹی آئی مخدوم شاہ محمود قریشی نے ان کے اختلاف کی شدید مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آج اس ایوان نے سپریم کورٹ کے فل بینچ کی جانب سے نااہل قرار دیئے گئے شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کی اجازت دی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ پاکستان کے آئین کی روح کے منافی اقدام کر رہی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو شخص اس ایوان کا رکن بننے کا اہل نہیں وہ اس ایوان سے باہر بیٹھ کر اس کی پالیسی پر اثرانداز ہو؟ سپریم کورٹ نے جس شخص کو جھوٹا قرار دیا ہے وہ اس ایوان کو کیسے ڈکٹیٹ کر سکتا ہے۔ شاہ محمود قریشی کے خطاب کے دوران نون لیگ والے اور اپوزیشن والے ایک دوسرے کے خلاف بھرپور نعرے بازی کرتے رہے۔
شاہ محمود قریشی کے بعد پیپلز پارٹی کی ڈاکٹر عذرا نے بھی اپوزیشن کی جانب سے شق 203 کو مسترد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایوان لوگوں کی امیدیں اور توقعات پوری کرنے میں ناکام رہا ہے، 4 سال سے ایوان میں حکومتی بینچ خالی تھے، آج ایک شخص کو بچانے کے لئے حکومتی حاضری پوری ہو گئی ہے۔
وزیر قانون زاہد حامد کے خطاب کے دوران اپوزیشن نے بھرپو شور شرابا کیا۔ تاہم وزیر قانون نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 1962ء کے پولٹیکل پارٹیز ایکٹ کے دوران ایوب خان کا دور تھا، ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت میں 1975ء میں اس شق کو نکال دیا گیا تھا، 1962ء کا سیاسی جماعتوں کا ایکٹ ایوب خان کے دور میں نافذ ہوا، اس کے سیکشن 5 کے تحت نااہل ہونے کے بعد کوئی شخص کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں رہ سکتا لیکن بھٹو کی جمہوری حکومت میں اس شق کو نکالا گیا تھا، 1975ء سے لے کر 2002ء تک یہ شق شامل رہی، اس وقت کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا، صدر مشرف نے دوبارہ نااہلیت کی شق ڈالی، آج جو پارٹی اعتراض کر رہی ہے، اسی نے 1975ء میں یہ شق آئین سے نکالی تھی، کسی کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا، 17 نومبر 2014ء میں سب کمیٹی کی میٹنگ میں فاروق ایچ نائیک، سید نوید قمر، نعیمہ کشور، شازیہ مری، انوشہ رحمان شامل تھیں، ایک سال پہلے سب کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا لیکن آج یہ لوگ غلط کہہ رہے ہیں کہ بل ہم سے چھپایا گیا، سب کمیٹی کی رپورٹ سینیٹ میں بھی پیش کی گئی لیکن کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا، نوید قمر اور ڈاکٹر عارف علوی کو ای میل بھی کی گئی لیکن کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔
زاہد حامد کے بعد عارف علوی کھڑے ہوئے اور انہوں نے وزیر قانون کے الزامات کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ سید خورشید شاہ نکتہ اعتراض پر بولے، 2002ء سے 2007ء تک زاہد حامد اسی طرح مشرف کا دفاع کیا کرتے تھے جس طرح آج وہ بہتان تراشی کرتے ہوئے نواز شریف کا دفاع کر رہے ہیں، یہ ان کی جاب ہے میں انہیں برا نہیں کہتا۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ نون نے 22 ستمبر کو سینیٹ جبکہ 3 اکتوبر کو قومی اسمبلی سے انتخابی اصلاحات بل منظور کرواتے وقت شق 203 بھی منظور کروا لی تھی جس کے ذریعے نااہل شخص کو وزیر اعظم بننے کا اختیار دے دیا گیا تھا۔ تاہم پیپلز پارٹی نے 24 اکتوبر کو سینیٹ میں دوبارہ انتخابی ایکٹ پر رائے شماری کروائی تھی جس میں شق 203 کو مسترد کر دیا گیا تھا اور نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بننے کے اختیار سے محروم کر دیا گیا تھا۔ آج قومی اسمبلی میں بھی پیپلز پارٹی نے یہ بل پیش کیا اور اسے منظور کروانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر حکومت اور اس کے اتحادیوں کی بڑی تعداد کے سامنے متحدہ اپوزیشن کی تمام کوششیں بے کار ثابت ہوئیں۔