وزیراعظم عمران خان ، وزیر ریونیو حماد اظہر،مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور ایف بی آر کے چئیر مین شبر زیدی نے چند دن پہلے ٹیلی ویژن پروگرام میں عوام کے ساتھ براہ راست بات چیت میں اس بات پر بھرپور زور دیا ہے کہ عوام ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے بے نامی اثاثے ظاہر کریں۔بہت سی یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ لوگ بہت کم اس جانب سنجیدگی کے ساتھ توجہ دے رہے ہیں۔ہمارا خیال تھا کہ لوگ عمران خان کی بات پر بھرپور توجہ دیتے ہوئے اپنے بے نامی اثاثے طاہر کر یں گے اور اس کی بدولت حکومت کے خزانے میں بھی میں خاط خواہ رقم آئے گی لیکن بہت سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ سکیم مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے گی۔
ایمنسٹی سکیم میںحکومت کی تمام تر کوششوں اور وزیراعظم کے بار بار کے خطاب اور کروڑوں روپے کے اشتہارات کے باوجود لوگوں سے ان کے اثاثے ڈیکلئیر کرانا آسان کام نہیں ہے۔ڈپٹی سپیکر نیشنل اسمبلی نے چند روز پہلے قومی اسمبلی کے اجلاس میں لفظ Selected کہنے پر پابندی لگادی ہے۔اپوزیشن عمران خان کو سیلیکٹڈ وزیراعظم کا نام دیتی ہے اور بلاول نے جب پہلی بار اسمبلی کے اجلاس میں عمران خان کے لیے یہ لفظ استعمال کیا تھا تو خود عمران خان نے بھی ڈیسک بجائے تھے۔اب ایسا کیا ہوگیا ہے کہ یہ لفظ تو بہت توہین آمیزہو گیا ہے جب کہ ڈاکو اوچور کے الفاظ بڑے زور و شور سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بولے جا رہے ہیں۔عوام یہ پوچھتے ہیں کہ کیا سیلیکٹد کا لفظ ڈاکو اور چور سے زیادہ توہین آمیز لفظ ہے؟ حکومت کا سارا زور عوام کی جیبوں سے پیسوں کے حصول پر ہے۔مہنگائی اور ڈالر کو کنٹرول کرنا،زراعت اور ایکسپورٹ پر توجہ دینا سماجی بہبود کے کاموں کو آگے بڑھانا،روزگار کے ذرائع پیدا کرنا،اس جانب حکومت کی توجہ نہیں ہے اس کے نتیجے میں عوام میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔
صرف ڈالر کی قیمت میں ہوش ربا اضافے کی وجہ سے پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 1490 ارب روپے بڑھ گیا ہے۔اب اس کا ذمہ دار کون ہے؟ سونے کی قیمت 81 ہزار روپے فی تولہ پر پہنچا دی گئی ہے۔ایک ماں جس نے اپنی بیٹی کی شادی پر اسکے لئے کانوں کے کانٹے خریدنے تھے جب اس کو سونے کی قیمت کا پتہ چلا تو اس نے مجبور ہو کر صرف انگوٹھی خرید لی اس کا کیا قصور تھا؟ سونے کی قیمت میں اتنا اضافہ انسانی سوچ سے باہر ہے۔حیرت کی بات ہے کہحکومت عوام کے مسائل پر توجہ کیوں نہیں دے پا رہی ہے ؟ یہ وہ سلگتے ہوئے سوالات ہیں جو ہر جانب سے ہر طبقہ فکر سے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ بجٹ پر اپوزیشن کی جانب سے ایک ہزار کے قریب کٹوتی کی تحاریک جمع کرائی گئی ہیں۔کیا حکومت مہنگائی اور ٹیکسوں کو کم کرنے کی اپوزیشن کی تجاویز مان لے گی ۔ہمیں تو ایسا کچھ اچھا دکھائی نہیں دیتا بحرحال حکومت کا بنیادی کام عوام کی زندگی میں بنیادی سہولیات کی فراہمی ہوتا ہے۔
ملک میں تعمیر و ترقی کے کام کرنا ہوتا ہے لیکن اس بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے تعلیم اور صحت کے فنڈز کم کر دیے گئے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے یہ کہکر بجٹ کو مسترد کیا ہے کہ یہ منتخب حکومت کا نہیں بلکہ آئی ایم ایف کا بنایا ہوا ہے۔یہی بات آل پارٹیز کانفرنس میں بھی کہی گئی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو اپوزیشن کی تجاویز کی چنداں پرواہ نہیں ہے۔سینٹ کے اراکین کی جانب سے بجٹ کے حوالے سے تجاویز قومی اسمبلی میں بھجوادی گئی ہیں ایسا لگتا ہے کہ ان کی کسی تجویز کو اہمیت نہیں دی جائے گی ۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت سینٹ اراکین کی تجاویزپر عمل درآمد کرتی ہے۔سینٹ میں جماعت اسلامی کے سینیٹر امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے کہ وہ سینٹ کے رکن ہیں لیکن حلفیہ کہنے کو تیار ہیں کہ حکومت کے کسی عہدیدار کی جانب سے بجٹ کے معاملے پر مشاورت نہیں کی گئی۔یقینا یہ چیزیں حکومت کے بجٹ کو متانزعہ بنائیں گی اور ملک کے اندر سیاسی درجہ حرارت گرمی سے بھی زیادہ اوپر جا سکتا ہے۔ملک میں گرمی عروج پر ہے۔بجٹ سے پہلے ہی مہنگائی نے لوگوں کی چیخیں نکال دی ہیں۔ مارکیٹوں میں ویرانی ہے۔لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں۔
اب حکومت اور کیا چاہتی ہے۔عوام کے لئے کوئی ایسا شعبہ رہ گیا ہے جس میں امید کی کوئی کرن ہو کہ زندگی بہتر ہو جائے گی۔ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کو دورہ پاکستان کے موقع پر اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔اور انھیں پاکستان کا سب سے بڑاعزاز نشان پاکستان پیش کیا گیا یہ سب اہتمام ملک کے لئے کتنا سود مند ہوتا ہے۔کیقطر کی جانب سے پاکستان میں تین ارب قطری ریال کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا ہے جب کہ ہمارے میڈیا میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے دعوے حکمران جماعت کی جانب سے کیے جا رہے ہیں۔ مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ دوحہ میں آئی ٹی کا شعبہ بھارت سے چھین لیں گے۔کیا ایسا ممکن ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں پاکستان کی افرادی قوت کو وہاں روزگا ر دیا جائے۔اگر ایسا ہوجاتا ہے تو اس سے پاکستان کی بہت سی افرادی قوت قطر میں روزگار کیلیے کھپائی جا سکتی ہے اور ہمیں زر مبادلہ کا ایک بڑا ذریعہ ہاتھ آسکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ماضی میں خاندانی تعلقات کو اہمیت دی گئی۔ اس بار پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان غیر ملکی سربراہ حکومت کو گاڑی میں بٹھا کر خود گاڑی چلا کر لائے۔عوام سوچتے ہیں کہ کیا اس طرح کی خدمت اور عزت و احترام کے دور رس نتائج ملک اور قوم کے لیے کب فائدہ مند ہوں گے۔
پاکستان اور قطر دونوں ملکوں کا خوراک،زراعت اور تجارت میں تعاون۔تیل اورگیس،ایل این جی وغیرہ کی تلاش میں تعاون پر اتفاق ہوا ہے۔ہم کتنے حجم کی تجارت قطر کے ساتھ کر سکتے ہیں اور اس سے پاکستان کو کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں اس بارے میں ہماری حکومت کو ایک واضع بیان دینا چاہئے کیونکہ تجارت تو ان لوگوں نے کرنی ہے جو پہلے سے اس شعبے سے وابستہ ہیں حکومت تاجر برادری کے لیے واضع لائحہ عمل کا اعلان کرے۔قطر روانگی سے پہلے قطر کے امیر نے جے ایف17 ٹھنڈر اور پاکستان کے مشاق طیاروں کا تین گھنٹے تک معائنہ کیا اس سے کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہمارے طیارے خریدنے میںدلچسپی رکھتے ہیں اور اگر دونوں مملک کے درماین طیاروں کی خریداری کا معاہدہ ہو جاتا ہے تو یہ پاکستان بہت بڑی کامیابی ہوگی۔: قطر فٹ بال ورلڈ کپ کا میزبان بھی ہے اس کے لیے لاکھوں کی تعداد میں روزگار کے مواقع موجود ہیں اس حوالے سے ہماری حکومت کو قطر سے بڑی سنجیدگی کے ساتھ بات کرنا ہوگی ہمارے لاکھوں لوگ اس اہم ایونٹ پر کام کرنے کیلئے ویزے حاصل کر سکتے ہیں۔قطر کے سربراہ کے دورہ پاکستان کو اس لحاظ سے کامیاب اور دوستانہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کو امیر قطر نے قطر فٹبال کی شرٹ پیش کی جب کہ عمران کان نے اپنے دستخط کے ساتھ ان کو کرکٹ بیٹ کا تحفہ دیا۔نیشنل اور انٹر نیشنل میڈیا پر شرٹ والی تصویر کچھ زیادہ ہی شیئر کی جا رہی ہے۔