اسلام آباد (جیوڈیسک) مسلم لیگ (ن) کے رہنما سعد رفیق کی گرفتاری، نیب قوانین اور احتساب کے معاملے پر قومی اسمبلی میں حکومت اور مسلم لیگ (ن) کے اراکین آمنے سامنے آگئے۔
ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ احتساب ہم سے شروع کریں اس کے مخالف نہیں لیکن اپوزیشن کو دبانے کا طریقہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کے حق میں نہیں، آج نیب اپوزیشن ممبران پر الزامات لگاتا ہے جس سے لگتا ہے وہ واقعی مجرم ہیں، آج میڈیا ٹرائل ہوگیا تو کل انصاف کہاں ملے گا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کو گرفتار کیا گیا اور آج تک کیس نہیں بن سکا، اپوزیشن کو دبانے کے لیے احتساب کے ادارے استعمال کیے جا رہے ہیں، ہم احتساب سے نہیں گھبراتے لیکن انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جو آج ہورہا ہے وہ پرویز مشرف کے دور میں ہونے والی چیزوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، لیکن وہ آمر کا دورہ تھا، ملک میں جمہوریت نہیں تھی لیکن آج اس کا کیا جواز ہے، کوئی جواب دینے والا ہے، اسپیکر اسمبلی احتساب سے نہیں انتقام سے اراکین اور پارلیمنٹ کو بچائیں۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں جن کا نام ای سی ایل پر نہیں لیکن ایف آئی اے نے ایئرپورٹ پر روک لیا جب کہ زلفی بخاری کا نام ای سی ایل میں ہے لیکن وزیراعظم اپنے جہاز میں بٹھا کر انہیں عمرے پر لے جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک نے وزیروں کو فیل کردیا لیکن وزیراعظم نے انہیں پاس کردیا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا ہیلی کاپٹر کیس نیب میں چل رہا ہے، اپوزیشن لیڈر کو گرفتار کیا جا سکتا ہے تو قائد ایوان کو بھی کیس میں گرفتار کیا جا سکتا ہے، اسپیکر پنجاب اسمبلی اور وزیر دفاع کے خلاف کیس چل رہا ہے انہیں بھی گرفتار کرلیں۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ کے پی کا احتساب بیورو بنا تھا، اربوں کاخرچہ ہوا کوئی پوچھنے والا نہیں، جہانگیر ترین کے بارے میں عدالتی حکم آیا وہ بھی آزاد پھر رہے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کی سابقہ کارکردگی دیکھ کر ان کا تقرر کیا، اگر احتساب چاہتے ہیں تو مجھ سے شروع کریں اور ہر ممبر بتائے جب سیاست میں آیا تھا تو اس کے پاس کیا تھا اور آج کیا ہے، اس ہاؤس سے احتساب شروع کیا جائے اور یہ بھی بتائیں کہ اس ہاؤس کے ممبران کتنا ٹیکس دیتے ہیں، ادارے آپ کے پاس ہیں اور ریکارڈ آپ کے پاس ہیں، پتہ کریں کونسی کرپشن ہوئی ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ کونسی کرپشن ہماری حکومت میں ہوئی، جو معیار شہباز شریف، نواز شریف اور سعد رفیق کے لیے رکھا ہے اگر وہ حکومت پر لاگو ہوئی تو 70 فیصد کابینہ ممبر اندر نہ ہوئے تو ذمہ دار میں ہوں۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جو نیب آج کر رہا ہے وہ احتساب نہیں ملک کی تباہی کا راستہ ہے، آج بیوروکریٹ کام نہیں کرتے، سابق چیئرمین اوگرا توقیر صادق پر ساڑے 4 سو ارب کا مقدمہ بنایا اور 7 سال گزر گئے لیکن کچھ نہیں ہوا۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے اظہار خیال کے بعد جب وزیر اطلاعات فواد چوہدری جواب دینے کھڑے ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے شور شرابا کیا گیا۔
(ن) لیگ کے شور شرابے پر فواد چوہدری نے کہا کہ ان کی سیاسی تربیت میں مسئلہ ہے، یہ پارٹی ضیاء نے بنائی تھی، ان کی تربیت اچھی نہیں ہوئی اس لیے دوسروں کی بات نہیں سنتے۔
وزیر اطلاعات کے جواب پر (ن) لیگی ارکان طیش میں آگئے اور فواد چوہدری پر جملے کسنا شروع کردیے، اس دوران ایوان میں شو شرابا بھی ہوا جب کہ اپوزیشن لیڈر شہبازشریف ایوان سے اٹھ کر چلے گئے۔
اپوزیشن کی جانب سے فواد چوہدری سے الفاظ واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا جس پر ڈپٹی اسپیکر نے وزیراطلاعات سے الفاظ واپس لینے کا کہا تو فواد چوہدری نے جواباً کہا کہ (ن) لیگ کی تربیت ٹھیک ہوئی۔
فواد چوہدری کے جواب پر ایک بار پھر (ن) لیگ نے شور شرابا کیا جس پر وزیراطلاعات نے کہا کہ تربیت ٹھیک نہ ہونے کا کہوں تو انہیں مسئلہ ہے اور ٹھیک ہونے کا کہوں تب بھی مسئلہ ہے۔
اپوزیشن کے احتجاج پر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے وزیراطلاعات کے تربیت سے متعلق الفاظ کارروائی سے حذف کر دیے۔
ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ سعد رفیق کی گرفتاری ضمانت منسوخ ہونے پر ہوئی، عدالت نے انہیں مکمل سنا پھر ضمانت منسوخ کی۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ جس طریقے سے پچھلے دس سالوں میں ملک چلایا گیا وہ سب کے سامنے ہے، شاہد خاقان عباسی کی بات درست ہےکہ احتساب کا عمل شفاف ہونا چاہیے لیکن انہوں نے ایک بات نظر انداز کردی کہ نیب کے موجودہ چیئرمین کی تقرری کی اتھارٹی وہ خود تھے، نیب کے موجودہ سیٹ اپ میں ایک چپڑاسی بھی ہمارا لگایا ہوا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ لگتا ہے ساری اپوزیشن کا اپنا خطرہ پڑا ہے، سب کو اپنے اپنے کرتوت یاد ہیں اس لیے گھبرائے ہوئے ہیں، ان کی حالت یہ ہےکہ جواب نہیں سننا چاہتے، چور کی داڑھی میں تنکا ہے اور بہت بڑا تنکا ہے، یہ لاڈلے کھلینے کو چاند مانگ رہے ہیں، یہ چاہتے ہیں ان سے باز پرس نہ ہو۔
فواد چوہدری کا کہنا تھاکہ عوام احتساب چاہتی ہے، عوام چاہتی ہےکہ دس سالوں میں جو لوٹ مار کا بازار لگایا گیا اس کا حساب دیں، نیب اور ادارے جو احتساب کررہے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں، اپوزیشن چاہتی ہے حکومت اس میں رکاوٹ ڈالے مگر ایسا نہیں ہوگا، یہ حکومت عوام کی خواہشات کی ترجمان ہے۔
وزیراطلاعات نے مزید کہا کہ نیب آزاد ادارہ ہے اور ہمارے ماتحت نہیں ہے، یہ وہ مقدمات ہیں جو نوازشریف اور شاہد خاقان عباسی کے دور میں بنے، یہ موجودہ سیٹ اپ اسی وقت کا ہے جب یہ اقتدار میں تھے، اب جب آپ اقتدار سے باہر نکلے اور ہاتھ آپ پر پڑا تو قانون میں خامیاں یاد آگئی ہیں، جب معاملہ دوسروں کے لیے چل رہا تھا تو وہ درست تھا، دونوں جماعتیں پانچ، پانچ سال اقتدار میں تھیں ان کو بیٹھ کر خامیاں دور کرنا چاہیے تھیں، ہمیں تو پہلے ہی دن خامیوں کا کہا گیا، ہم نے پہلے دن ہی ٹاسک فورس بنائی اور اپوزیشن کی کمیٹی بھی بنادی۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ لگ رہا ہے اپوزیشن کی خواہش ہےکہ جو لوگ اسمبلی میں آئے انہیں کرپشن کا لائسنس مل گیا، عوام کے پیسے کا حساب دینا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے چیئرمین سے لے کر تمام وہ لوگ جو منی لانڈرنگ میں ملوث تھے انہیں اہم عہدوں پر لگایا گیا، انہیں کیوں لگایا گیا؟ کس کا پیسہ باہر بھیج رہے تھے؟ یہاں سے پیسہ باہر بھیجا گیا، ان لوگوں نے جب سیاست شروع کی تو ان کے پاس موٹرسائیکل تھی اب ان کے پاس گاڑیاں ہیں۔
کوئی پوچھنے والا نہیں کہ پیسہ کہاں سے آیا، کوئی پوچھ لے تو ایوان کا تقدس خراب ہوجاتا ہے، ان کو سعد رفیق یا شہباز شریف کا دکھ نہیں بلکہ اپنی باری کا دکھ ہے اس لیے زیادہ اچھل رہے ہیں، یہ وہی ہیں جنہیں پتا ہے دس سالوں کا حساب دینا ہوگا، اگر ہم ان داغ دار لوگوں سے ملک کے عوام کے پیسے واپس نہ لے سکے تو پی ٹی آئی کو حکومت کرنے کا حق نہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پہلی بار شفاف احتساب ہورہا ہے، وزیراعظم اس معاملے میں پرعزم ہیں، کوئی بھی کسی بھی پارٹی کا ہو اس کا حکومت پر کوئی کنٹرول نہیں، ہم سمجھتے ہیں احتساب کے عمل کو جس طریقے سے متنازع بنارہے ہیں اس کا فائدہ نہیں ہوگا، نیب اور عدالتیں اپنا کام کررہے ہیں انہیں اپنا کام کرنے دیں، آپ لوگ اپنے گریبان میں جھانکیں، آپ لوگوں نے جو سلوک پاکستان کے ساتھ کیا اس پر لوگوں سے معافی مانگیں پھر آگے چلیں۔