قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) کی لیکس۔۔۔

National Institute of Cardiology

National Institute of Cardiology

تحریر: حفیظ خٹک
میں روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والا ایک غریب مزدور ہوں۔ حال ہی میں اپنی زندگی کا بدترین تجربہ ہوا۔اس تجربے کے باعث قوم کے اس قومی ادارے برائے امراض قلب کا نام جب میرے سامنے آتا ہے تو مجھے تلخ تجربات و واقعات یاد آتے ہیں دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی سانس بھی پھولنے لگتی ہے۔ چونکہ ادارہ بڑا ہے غریبوں کیلئے دل کے امراض کے علاج کیلئے اس کا ایک مقام ہے اس لئے آج تک میں نے کوشش کی ہے کہ اس کے خلا ف گفتگو سے پرہیز کروں کہیں ایسا نہ ہوکہ میرے غریب ہم وطنوں کا نقصان ہو۔ وہ لوگ جو اپنی غربت کے باعث دل کے امراض کا علاج نہیں کرا سکتے ان کیلئے اس ادارے کے دروازے بھی بند ہوجائیں۔ امیروں کا اور وہ بھی امیر بیماروں کا کیا ہے۔

انہیں تو ہر وقت ہر جگہ ہر مقام پر پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔ انہیں ہسپتال کا اسٹاف خاص اہمیت دیتے ہوئے ان کے کاموں کو ترجیح دیتے ہیں اور انہیں ہر طرح سے آرام پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ امیروں کا ایک جانب تو یہ حال ہے لیکن اسی ہسپتال میں غریبوں کا جو حال ہوتا ہے ، انہیں جس انداز میں علاج کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں ، جس طرح سے ان کی جیبوں سے پیسے نکالے جاتے ہیں اور کم پیسوں کی ادائیگی پر رقم پوری لینے کیلئے جس انداز میں ان کے ساتھ برتاؤ کیا جاتا ہے، ان سے شناختی کارڈ لے کر جمع کر لیا جاتا ہے اور مریضوں تک کو ایک خاص وارڈ میں منتقل کر کے اس وقت تک گھر نہیں جانے دیا جاتا جب تک کہ وہ ہسپتا ل کی انتظامیہ کو علاج کی رقم پوری نہیں دے دیتے۔

محمد منیر صاحب کی گفتگو میں یہ پہلا توقف تھا ، چند لمحے طویل سانسیں بھرنے کے بعد انہوں مزید کہا کہ میرے گھرانے میں والدین ، ایک بہن ،تین بچے اور میری گھر والی شام ہیں۔ کرائے کے گھر میں رہائش ہے بڑی محنت و مشقت کے بعد گھر کا خرچ پورا ہوتاہے۔ چند روز قبل میرے والد صاحب کے سینے میں درد ہوا ، ہم محلے کے ڈاکٹر کے پاس لے گئے انہوں نے کہا کہ انہیں کارڈیو ہسپتال لے جائیں کیونکہ دل کا معاملہ ہے اور دل کے دورے کا معاملہ ہوسکتا ہے۔ ہم فوری طور پر انہیں قومی ادارہ برائے امراض قلب جو کہ شاہراہ فیصل پر جناح ہسپتال کے قریب واقع ہے ، والد صاحب کو وہاں لے گئے۔ ایمر جنسی میں 100 روپے کا ٹوکن بنایا اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے معائنہ کیا ، ای سی جی کیا گیا جس کے بعد ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کے والد کو دل کا دورہ پڑا ہے ، انہیں داخل کیا جائیگااس لئے آپ جائیں اور ان کا داخلہ فارم بھریں۔

Angioplasty

Angioplasty

یہ سن کر تو میرے اوسان خطا ہوگئے۔ داخلہ دفتر گیا اور وہاں 500 روپے دے کر فارم بھرا ۔ فارم لے کر جب ڈاکٹر کے پاس واپس آیا تو ایک اور ڈاکٹر نے کہا کہ آپ اپنے والد صاحب کیلئے 80 ہزار روپے کا انتظام کریں تاکہ ان کی انجیو پلاسٹی کی جاسکے۔ ان کی انجیوپلاسٹی کرنے سے ان کی جان بچائی جاسکتی ہے۔ یہ جملہ سنتے ہی میں تو سکتے کی حالت میں آگیا ۔ ڈاکٹرز نے میری حالت کو درست کرنے کے بجائے مجھے پیسوں کو جلدی انتظام کرنے کو کہا اور چلے گئے۔ میں نے ان کو جاتے ہوئے کہا بھی کہ میں ایک غریب آدمی ہوں اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں جس قدر آپ اس وقت بتا رہے ہیں ۔ اس وقت تو میں صرف 3/4ہزار روپے کا ہی انتظام کر سکتا ہوں۔ وہاں کے عملے نے میری کوئی بات نہیں سنی اور نہ ہی میری کسی بات پر توجہ دی وہ میرے والد کو کیتھ لیب کی جانب لے گئے۔

جہاں پر میرے والد صاحب کی انجیوپلاسٹی کر دی گئی۔ اس عمل کے بعد والد صاحب کی طبیعت تو بہتر ہوگئیتاہم میرے اوپر اک (Tention) سی سوار ہوگئی کہ میں اتنے پیسوں کا بندوبست بھلا کیسے کروں گا؟ بحرحال انے چند دوستوں اور رشتہ داروں سے پیسوں کا تقاضا کیا اور بھی جاننے والوں سے پیسوں کے قرض کی بات کی ، بڑی مشکل اور محنت سے 20ہزار روپے جمع ہوئے ۔ وہ رقم وہاں جمع کرائی ۔ تاہم عملے نے اس رقم پر کی ادائیگی پر میری بہت بے عزتی کی ، ذلیل و رسوا کیا ۔ انہوں نے باقی ماندہ رقم بھی جلد جمع کرانے کا تھوڑا سا وقت دیا ۔ مزید رقم میرے لئے پہاڑ کی مانند تھے میں کہیں سے بھی بقیہ رقم انہیں دے سکتا تھا اور وہ میرے والد کی چھٹی بھی کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔ بلاآخر ایک روز ہم نے بڑی مشکل سے اپنی مجبوری کو احساس کرتے اور لاچاری کو مدنظر رکھتے ہوئے ہسپتال سے فرار ہونا مناسب جانااور یوں ہم اپنے والد کو لے کر اپنے گھر آگئے۔

اب وہ رقم جو قرض لی تھی اس کی ادائیگی کا مسئلہ تھا لہذا میں نے زیادہ مزدوری کرنا شروع کردی ۔ ہسپتال کی بقیہ رقم بھی میرے سامنے تھی کہ وہ بھی ادا کرنی ہے لیکن یہ بات میری سمجھ سے اب تک بالاتر ہے کہ ایک سرکاری ہسپتال میں بلااتنے پیسے کیسے ہوگئے ؟ کیا یہ ہسپتا ل واقعی غریبوں کا ہی ہسپتال ہے ؟ میں تو آج بھی ، اس ملک کے صدر سے وزیر اعظم سے پوچھتا ہوں ، گورنر سندھ سے وزیر اعلی سندھ سے پوچھتا ہوں ، اور تو اور میں آج ہر ڈاکٹر سے ہر ٹھیکیدار سے اور اس شہر کے ہر شہری سے اور آخر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا امراض قلب کا یہ ہسپتال کیا غریبوں کیلئے بھی ہے یا نہیں ؟ اور کیا غریبوں کے دل کا امرا ض کا کوئی علاج ممکن نہیں ؟ اسے دل کا مرض ہوا تو اسے سمجھ جانا چاہئیے کہ اب اس کا علاج ہمارے بس میں نہیں لہذا اب تو صرف موت کا انتظار ہی اس کا علاج ہے۔کیا ہے کوئی جواب میرے ان سوالوں کاآپ کے پاس ، آپ کی میڈیا کے پاس ،یا انسانوں کیلئے فلاحی کام کرنے والوں کے پاس۔۔۔۔

Doctor Fees

Doctor Fees

چند لمحوں کے بعد انہوں نے کہا کہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ ان 80 ہزار روپوں میں سے اینجیو پلاسٹی کرنے والے ڈاکٹروں کو 50 فیصد ، بے ہوشی دینے والے کو 25 فیصد اور ہسپتال کے عملے کو 10 فیصد دیئے جاتے ہیں جبکہ باقی ماندہ 40 فیصد کی رقم کو ایک مجموعی پول میں ڈال دیا جاتا ہے اور اس پول میں جانے والی رقم اس ہسپتال کے ڈاکٹروں میں ہی بٹ جاتی ہے اور ان ڈاکٹرز کو بھی رقم مل جاتی ہے جو کہ مریض کو ایک بار بھی نظر نہیں آتے ہیں ۔ آخر ایک مریض اور وہ بھی ایک غریب مریض کے ساتھ یہ سلوک یہ لوٹ مار کیوں ؟ مجھ جیسے غریب شہری تو یہ صورتحال جانتے بھی نہیں اور نہ ہی انہیں اس صورتحال کا ذرا سا بھی احساس یا اندازہ ہوتا ہوگا۔لیکن جس کسی کے ساتھ یہ سب ہوتا ہے تب ہی اسے پتہ چلتا ہے کہ ایک سرکاری ہسپتال کے اندر اس کے ساتھ کس قدر ظلم ہوا ہے۔ میرے ساتھ ہونے والے اس واقعے کے بعد یہ بات ذہن میں رکھیں اس شہر کا ہی نہیں اس ملک کا ہر شہری کہ ان کے پاس 80 ہزار روپے ہوں گے تو ان کا ان کے پیاروں کا امراض قلب کے اس سرکاری ہسپتال میں علاج ہوجائیگا اس کی اینجیوپلاسٹی ہوجائیگی ۔ یہ رقم ہو تو وہ اس امراض قلب کے ہسپتال کا رخ کرے اگر یہ رقم نہیں ہے تو اس این آئی سی وی ڈی کا رخ بھول کر بھی نہ کریں۔ یہ ہسپتال اب غریبوں کا نہیں اور غریبوں کے دل کے مریضوں کا ہے۔

اپنا آخری جملہ پورا کرنے کے بعد وہ شخص اٹھا اور چادر کندھے پر رکھتے ہوئے چال گیا۔
وہ تو چلا گیا ، کچھ لمحوں کے بعد میری نظر سے اوجھل ہوگیا لیکن میرے لئے شہر قائد کے متصل سمند ر کی طرح ایک سوچ کا سمندر چھوڑ گیا ۔ دل کا ہسپتال جس کا اب تاک میرے سامنے نام ہی کارڈیو سینٹر کی صورت میں لیا جاتا رہا ہے۔ اس نام سے اس شہر کی ہی نہیں اس ملک کی آبادی کا بڑا تناسب اسی نام سے پہچانتی ہے یا د کرتی اور رکھتی ہے ۔ آج مجھے پہلی بار یہ پتہ چلا کہ اس کا اصل نام تو کچھ اور ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ اس کا تعارف تو بلا وجہ کا ہے اس کا اصل کردار تو کچھ اور ہے۔ یہ صرف نام کا غریبوں کیلئے ہے اب تو اگر یہی صورتحال رہی تو اس میں آنا غریبوں کا ان کے مریضوں کا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔ کیا ان کے اندر دل نہیں ، کیا ان کے دل میں امراض نہیں ،کیا ان کے دلوں کا علاج نہیں ، آخر کیوں ایسا ہے ؟ اس ملک کا وزیراعظم میاں نواز شریف اپنے ایک چھوٹے سے ٹیسٹ کیلئے برطانیہ کا رخ کرتا ہے۔

اس کا وزیر دفاع اپنی بیگم کے علاج کیلئے جرمنی کی جانب جاتا ہے ۔ بڑے سیاستدان و رہنما ، امیر و امرا ء اپنے عام علاجوں کیلئے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور دل کیلئے تو اس باہر سے بھی بہت دور بہت باہر چلے جانا ضروری ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں غریبوں کا کیا قصور ہے ، ان کی غلطی کیا ہے ۔ ان کے پاس دولت نہیں ، ان کے پاس نہ ہی چپھانے والی دولت ہے اور نہ ہی نظرآنے والی ۔ اس طرح کی دولت جن کے پاس ہے ان کے نام پانامہ لیکس میں آرہے ہیں اور نام آنے کے بعد وہ جابھی رہے ہیں ۔ اپنی کرسیاں اپنی نشستیں اپنے عہدے سب چھوڑ کر مستعفی ہورہے ہیں لیکن اثر نہیں پڑ رہا تو وہ ہمارے وزیر اعظم پر نہیں پڑا۔ انہیں کوئی فرق بھی نہیں پڑا نہ پڑے گا۔

Treatment

Treatment

جب ملک کا سربراہ ایسا ہوگا تو اس کے زیر انتظام چلنے والے ادارے کیسے ہوں گے ؟ ان کے چلانے والے کیسے ہوں گے ؟ وہ بھلا کیونکر غریبوں کی فکر کریں گے؟ وہ تو قومی امراض قلب جیسے اداروں کو بھی نہیں بحشیں گے۔ یہی امراض قلب کا ادارہ تھا جب اس میں غریبوں کا علاج مفت ہوا کرتا تھا لیکن اب تو مفت لفظ ختم ہی ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس این آئی سی وی ڈی (قومی ادارہ برائے امراض قلب) میں بھی پانامہ لیکس کی طرح کچھ لیکس ہوئی ہیں ، اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی ، کیا اور کیسی لیکس ہیں جن کے باعث اس قومی ادارہ برائے امراض قلب کا یہ حال ہوگیا ہے۔ اس لیکس کو بھی ڈھونڈنے کی اور اس لیکس کو سامنے لانے کی ضرورت ہے اور نہ صرف سامنے لانے کی ضرورت ہے بلکہ اس شہر کے عوام کیلئے ، اس ملک کے عوام کیلئے مثبت انداز میں مثبت اقدام کرنے کی ضرورت ہے تا کہ کسی اور کے ساتھ ایسا سلوک نہ ہوجائے جیسا محمد منیر کے ساتھ ہوا تھا۔

تحریر: حفیظ خٹک
hafikht@gmail.com