تحریر : حفیظ خٹک قومی ادارہ برائے امراض قلب اک حساس نوعیت کا ہسپتال ہے جہاں دل کے مریضوں کا بہترین انداز میں جدید طریقے سے علاج ہوتا ہے۔ سرکارکے زیر انتظام ہونے کے باعث اس ہسپتال میں مریضوں سے علاج معالجے کی رقوم نہیں لی جاتی رہیں اس ہسپتال کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ اس عمل کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسی وجہ سے شہر قائد سمیت ملک بھر سے دل کے مریض یہاں کا رخ کرتے اور سینکڑوں ہزاروں میل کا سفر طے کر کے اپنا علاج معالجہ یہاں سے کرالیا کرتے۔ سرکار کے زیرانتظام ہونے کے سبب مذکورہ ہسپتال میں طبی عملے ،سرجن و دیگر ڈاکٹرز کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جاتیں۔ اپنے مطالبات کیلئے آئے روز ہسپتالوں میں ڈاکٹرز و دیگر عملے کی جانب سے ہڑتال کی جاتیں ، احتجاج کا کوئی دوسرا راستہ اختیا ر کر لیا جاتا جس سے سب سے زیادہ تکلیف مریضوں کو پہنچتی، ایسابھی ہوا کہ ملازمین کے احتجاج کے سبب بعض مریضوں کی زندگیوں کے چراغ گل ہو گئے تاہم یہ بات قابل تعریف ہے کہ قیام سے آج تک ادارہ برائے قومی امراض قلب میں کوئی احتجا ج و ہڑتال نہیں ہوئی۔ مریضوں کی خدمت اور انہیں علاج کی مکمل فراہمی کو سرفہرست رکھ کر ہی یہاں کے کام اور دیگر اقدامات کئے جاتے رہے ہیں۔
Nicvd Hospital
سول و جناح ہسپتال میں بھی کسی مریض سے رقم کا تقاضہ نہیں کیا جاتا اور ایسا ہی عباسی شہید ہسپتال میں بھی ہوتا ہے، تاہم اب اس قومی ادارہ برائے امراض قلب کی صورتحال تبدیلی کی جانب رواں ہے۔ اب ڈائریکٹر ہسپتال کی جانب سے کچھ نئی پالیسیاں مرتب کی گئیں ہیں جن پر عمل بھی باظابطہ شروع کر دیا گیا ہے ان کے تحت مریضوں کیلئے لفظ مفت اب ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ اب ہر عمل کا چیک اپ ، ہر ٹیسٹ کا حتی کہ جنرل واورڈ میں داخلے تک کی بھی ایک رقم فیس کی مد میں طے کی گئی ہے جس کے ادائیگی لازم ہے اور اس ادائیگی کے بغیر مریض کا داخلہ ممنوع طے پاچکا ہے۔ اس عمل کے ذریعے اس قدام کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رقم گورننگ باڈی میں تقسیم ہورہی ہے یا سرجن یا ڈاکٹرز میں یا پھر بے ہوشی دینے والے عملے سمیت دیگر عام عملے میں ، یا پھر وہ رقم ہسپتال کے مرکزی اکاؤنٹ میں جمع ہورہی ہے۔ ان سوالات کے جوابات تو براہ راست گورننگ باڈی دے سکتی ہے یا پھر ہسپتال کا ڈائریکٹر ، دونوں صورتوں میں مریضوں کا یہ مطالبہ ہے کہ ان کا علاج مفت ہونا چاہئے۔
اینجیوگرافی ، اینجیوپلاسٹی ، اوپن ہارٹ سرجری ، کلوز ہارٹ سرجری ، یا ایمر جنسی سرجری کی تفصیلا ت معلوم کرنے پر یہ صورتحال سامنے آئی ہے کہ ان تمام دورانیوں کے نتیجے میں ڈاکٹرز و بے ہوشی دینے والوں کو ہر مرحلے کے نتیجے میں اک مخصوس رقم فراہم کی جاتی ہے جو کہ مبلغ 1سے 21ہزارروپے تک ہوتی ہے۔ اس میں سرجن و ڈاکٹر کا حصہ الگ اور بے ہوشی دینے والے کا حصہ الگ ہوتا ہے۔جبکہ تمام ڈاکٹرز و بے ہوشی دینے والے ٹیکنیشن و دیگر عملے کو حکومت کی جانب سے اپنے کاموں کی تکمیل کیلئے مخصوص رقم تنخواہوں کی مد میں دیئے جاتے ہیں اور وہ ، دراصل وہی رقم ہوتی ہے جو کہ ابتداء ملازمت کے وقت طے ہوتیں ہیں۔ اس مرحلے کے باوجود یہ نئی پالیسی غیر طبی عملے سمیت مریضوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔
اب مریضوں کو جنرل وارڈ کے عیوض 10ہزار روپے دینے پڑتے ہیں جبکہ ایسا کوئی بھی عمل جناح یا سول ہسپتال میں نہیں ہوتا ۔ وہاں ہونے والے آپریشن کے بھی مریضوں سے پیسے نہیں لئے جاتے ان اداروں میں مریضوں کاتمام تر علاج مفت ہوتا ہے لیکن اب اس ہسپتال میں یہ لفظ مفت اختتام پذیر ہے۔ مذکورہ پالیسی کے نتیجے میں مریضوں کے ذہنوں میں نت نئے سوالات جنم لے رہے ہیں ، بعض مریض اور ان کے تیماردار تو یہاں تک غصے میں اپنے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے یہ کہہ گئے ہیں کہ یہ ڈاکٹرز نہیں یہ بھی لٹیرے ہیں یہ اور ان میں کچھ ڈاکو ہیں۔ پہلے کوئی پیسے نہیں لیتے تھے اور اب انہوں نے لوٹنا شروع کر دیا ہے، یہ سب مل کر غریب مریضوں کا استحصال کر رہے ہیں۔
Heart Patients
کچھ ذرائع کے مطابق اس ہسپتال کو جس قدر فنڈ سندھ حکومت فراہم کرتی ہے شاید ہی وہ کسی اور ہسپتال کو اتنا فنڈ فراہم کرتی ہو۔ اس صورتحال میں ہسپتال کا ڈائریکٹر برملا یہ کہتا ہوا دیکھا گیا ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اس ہسپتال میں ہر ڈاکٹر کی تنحواہ کو 10لاکھ روپے سے اوپر تک لے جاؤں۔ اس مقصد کیلئے اس کی جانب سے حالیہ پالیسی پر عمل درآمد تیزی سے کیا جا رہا ہے۔ جبکہ اس مد میں سب سے زیادہ متاثر غریب مریض ہورہے ہیں۔ وہ مریض جو نہایت مجبوری اور مفلسی کے عالم میں ہسپتال پہنچتے ہیں اور انہیں یہ کہہ کر واپس بھیج دیا جاتا ہے کہ ان کے پاس علا ج کیلئے مذکورہ رقم نہیں،ایسی حالت میں اگر مریض کچھ بھی صاحب حیثیت ہوتا ہے یا اس کے عزیز و اقارب اسی شہر قائد میں مقیم ہوتے ہیں تو وہ ان کے پاس جاکر رقم کا تقاضا کرتا ہے اور قرض ملنے کی صورت میں وہ اپنے مریض کا علاج کرتا ہے۔
اگر ایسا نہیں ہوپاتا تو وہ مریض کا تیماردار ہسپتال کے عملے کو ، وہاں موجود دیگر مریضوں کوعجب نظروں سے دیکھتا چلا جاتا ہے۔ مجبوری، بے بسی ، مفلسی و لاچارگی کی اک تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ اس لمحے اس کی کیفیت کا ذرا بھی احساس اسی ہسپتال کے ڈائریکٹر کو نہیں ہوپاتا یا اگر ہوتا بھی ہے تو کیا وہ انتہا درجے کی بے حسی کا مظاہرہ کرتا ہے؟لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایسے احساسات سے عاری ہوکر مخص اپنی کامیابی کے خصول کیلئے پالیسیوں کوجاری رکھے ہوئے ہے۔
ہسپتال کی یہ صورتحال انتظامیہ کیلئے ، حکمراں جماعت اور مرکزی جماعتوں کیلئے بااثر شحصیات و سیاسی رہنماؤں کیلئے تو اچھی ہوسکتی ہے وہ اس پر کسی طرح کی آواز و احتجاج ، مظاہرہ و دھرنا تو نہیں دیں گے اور نہ ہی غریبوں کے ووٹوں پر صوبائی اور مرکزی اسمبلی میں پہنچ کر اس ملک کی نام نہاد خدمت کرنے والے اراکین اس انتہائی اہمیت کے حامل معاملے کو حل کرنے کیلئے آگے آئیں گے۔
دل کے غریب مریضوں کا نقصان ہو رہا ہے اور یہ آگے بڑھتا رہے گا، اموات میں اضافہ ہوگا اور اس شرح کو بھی کاغذوں کی نظر کر کے ہسپتال کا ڈائریکٹر اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے اپنی جدوجہد بڑھاتا رہے گا اور کسی حد نہیں پوری حد تک کامیابی حاصل کر لے گا۔
Aga Khan Hospital
سرجن، ڈاکٹرز سمیت دیگر اسٹاف بھی اپنی تنحواہوں میں اضافے کے ساتھ زیادہ مستعدی سے مریضوں کیلئے نہیں ڈائریکٹر کیلئے خدمات سرانجام دیں گے۔ NICVDْ قومی ادارہ برائے امراض قلب اس انداز میں اس شہر کا ایک اور آغاخان ہسپتال بن جائیگا جہاں علاج کیلئے اس ملک کا غریب سوچتا بھی نہیں، یہی حال اس قومی ادارے کا بھی ہوجائیگا اگر فوری طور وزیر صحت ، وزیر اعلی ، گورنر سندھ، مرکزی وزیر صحت ، وزیر اعظم ، صدر مملکت اس معاملے کو اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے اقدامات نہیں کرتے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ملک کی غریب عوام کا احساس کرتے ہوئے فوری طورپر ایسے مثبت اقدامات کئے جائیں جن سے دل کے مریض کا بہتر و باآسانی مفت علاج ممکن ہو سکے اور وہ صحتیابی کے بعد اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصے کا کردار ادا کر سکیں۔