تحریر : میر افسر امان ملک اس وقت مشکل حالات سے گزر رہا ہے اس لیے اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔پاکستان کے خلاف گریٹ گیم کے اہل کاروں نے اپنے اپنے کارڈ کھیلنے کی گیم کو تیز تر کر دیاہے۔ ان حالات کو سامنے ر کھ کر سپہ سالار نے عوام کے لیے اپنا پیغام دیا ہے جس کو آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹرجنرل میجر جنرل آصف غفور صاحب نے اپنی پریس کانفرنس کے آخر میں پڑھ کر سنایا کہ” اگر پاکستان کے ریاستی اور غیر ریاستی دشمن پاکستان کو کمزور اور غیر مستحکم کرنے کے لیے متحد ہوسکتے ہیںتو پھر پاکستانی قوم دفاع کے لیے ایک کیوں نہیں ہو سکتی” اے کاش! سپہ سالار کی یہ بات ہمارے سیاسی لیڈروں کو سمجھ آ جائے۔ بلکہ کرپشن کے الزام میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ کے مطابق نا اہل وزیر اعظم، فوج اور عدلیہ کے خلاف ہو گیا ہے۔ اپنے حماتیوں کو فوج اور عدلیہ کے خلاف اُکسا رہا ہے۔ جبکہ مرکز، صوبہ بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اس کی پارٹی کی حکومت ہے۔
کیا یہ اپنی ہی حکومت کے خلاف تحریک چلا رہا ہے۔ جواب! نہیں صرف اپنی ذات کے لیے ملک میں افراتفری پھیلا رہا۔ جبکہ اس وقت پاکستان میں اتحاد کی ضرورت ہے ۔ نا اہل وزیر اعظم کے مطابق ” اگرمیں نہیں تو پھر ملک بھی نہیں” کی ٹھان لی ہے۔ دوسری طرف ریاستی اور غیر ریاستی ملک دشمن قوتوں نے اتحاد کیا ہوا ہے۔ پاکستان کا دوست نما دشمن،امریکا دھمکیاں دے رہا ہے۔مشرقی سرحد پر پاکستانی کے ازلی دشمن، بھارت نے جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ مغربی سرحد پر قوم پرست افغانستان حکومت کی طرف سے دہشت گرد حملے کر رہے ہیں۔ ان حالات میں فوج کے ترجمان نے امریکی ڈو مور کے مطالبہ پر اپنی پریس کانفرنس میں صاف صاف کہہ دیا کہ ہم ڈو مور نہیں کر سکتے۔ اب امریکا اور افغانستان کوا قدامات کرنے کی ضرورت ہے۔حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی پر کہا، کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک سمیت تمام گروپس کے خلاف بلا تفریق کاروائی کی۔ یہ بھی کہا کہ پاکستان میں کسی دہشت گرد تنظیم کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ سی پیک کو سیکورٹی فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
اس طرح گریٹ گیم کے بڑے اہل کار،امریکا کو پیغام دے دیا گیا ۔گریٹ گیم کے دوسرے پارٹنر بھارت کو کہا گیا، کہ کلبھوشن کے مقدمے پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ آپ چاہے مغربی سرحد پر کتنا بھی دبائو ڈالتے رہیں۔ ہم نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر گلبھوشن کی فیملی کی ملاقات کر دی ۔بھارت نے اس پر بھی منفی پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ جہاں تک چھوٹے اور من گھڑت باتیں کی۔ جہاں تک بی جے پی کے ایک لیڈر نے پاکستان کے چارٹکڑے کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی و سفارتی مدد کرتا رہے گا۔امریکا افغانستان میں٤٨ ناٹو فوجیوں کے ساتھ لڑی جانے والی جنگ ہار چکا ہے۔ ایک ایک کر کے ناٹو ممالک نے اپنی فوجیں نکال لی ہیں۔ افغانستان میںساٹھ فی صد پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ افغانستان کی تاریخ میں صرف طالبان کی حکومت پاکستان کی دوست حکومت تھی۔ امریکا ہمیں دھمکی دے کر افغان طالبان سے لڑانا چاہتا ہے۔ امریکا کے کہنے پر پاکستان نے فاٹا میں کئی آپریشن کیے۔آخر میں شمالی وزیرستان میں بھی آپریشن کیا جبکہ یہ آپریشن سابق سپہ سالار نے امریکا کے دبائو کے باوجود نہیں کیا تھا۔ اس آپریشن کے دوران دہشت گرد افغانستان بھاگ گئے۔ وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ وہاں پر دہشت گردی کے اڈے قائم ہیں۔ٹی ٹی پی کا سربراہ فضل اللہ وہاں پر موجود ہے۔
امریکا جو پاکستان کی دوستی کا دم بھرتا ہے، اگر چاہے تو ڈرون حملہ میں اس کو ہلاک کر سکتا ہے۔ امریکا نے افغانستان میں پاکستان دشمن اور بھارت کی حمایتی قوم پرست غنی حکومت بنائی ہو ئی ہے۔ امریکا یہ بھی کئی بار کہہ چکا ہے کہ افغانستان میں بھارت کاکردار ہے۔جبکہ بھارت کی افغانستان سے سرحد تک نہیں ملتی ہے۔ امریکا بھارت سے دفاعی معاہدہ بھی کر چکا ہے۔ اس کو نیوکلیئر سپلایئر گروپ میں شامل کرنے کی کوشش بھی کرتا رہتا ہے۔ اگر ہمارا سدابہار دوست چین ویٹو پاور استعمال نہ کرے تو اب تک بھارت نیوکلیئر سپلایئر گروپ کا ممبر بن چکا ہوتا۔ دوست نما دشمن امریکا،اس سے قبل مکاری سے پاکستان کو استعمال کرتا رہا ہے۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے امریکا کا ساتھ دے کر تاریخی غلطی کی تھی۔امریکا کو پاکستان کے بحری ،بری اور فضائی راستے استعمال کرنے دیے۔ امریکا نے افغانستان کو تورا بورا بنا دیا۔ پاکستان کا مسلمان پڑوسی ملک افغانستان امریکاکی وجہ پاکستان کے خلاف ہو گیا۔ امریکا کی وجہ سے پاکستان کا ١٥٠ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ستر ہزار شہری اور فوجی شہید ہوئے۔ پاکستان کے لاکھوں شہری ،فوجی آپریشنوں کی وجہ سے گھروں سے بے گھر ہوئے۔پاکستان کے فوجی ہیڈ کواٹر پر حملہ ہوا۔ پاکستان کے سارے دفاعی اداروں اور ایئر پورٹس پر حملے ہوئے۔ پاکستان کی مساجد، امام بارگاہوں،چرچ ،دینی مدارس،بازار، اسکولز اورمزارات پر حملے ہوئے۔ دہشتگردی کے خلاف پر پوری دنیا سے زیادہ پاکستان نے قربانی دی۔ امریکا پھر بھی راضی نہیں ہوا۔پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ ڈو مور کا مطالبہ کر رہا ہے۔
کہتا کہ کہ ہماری بات نہ مانی گئی تو پاکستان بہت کچھ کھو دے گا اور ہماری بات مانی تو کچھ پا لے گا۔ امریکا! تم نے پاکستان کے ساتھ بہت دھوکا کر لیا۔ اب پاکستان تمھارے دھوکے میں نہیں آئے گا۔ دوستی کے نام پر تم نے پاکستان کو بہت بے وقوف بنا لیا۔ اب پاکستان کے مقتدر حلقے اپنی عوام کی اُمنگوں کا لحاظ رکھتے ہوئے تمھارا ساتھ نہیں دیں گے۔تمھارے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔دوسری طرف پاکستان کا ازلی دشمن بھارت ہے۔جو پاکستان کو توڑنے کی مہم جاری کیے ہوئے ہے۔جس نے پاکستان بنتے وقت ہی کہہ دیا تھا کہ جیسے جیسے دو قومی نظریہ کمزور ہو گا۔ ہم پاکستان کو دوبارہ اکھنڈ بھارت میں شامل کر لیں گے۔اس پروگرام کے تحت اُس نے پاکستان کے مشرقی بازو میں اپنے پلائنٹڈ لوگوں کے ذریعے قومیتوں کا ڈول ڈالا۔ انہیں ایک قوم پرست شیخ مجیب کے روپ میں غدارِپاکستان مل گیا۔جس نے بھارت کی ایما پر اگر تلہ سازش تیار کی اور مشرقی پاکستان میں محرومیوں کے نام پر مغربی پاکستان کے خلاف ذبردست پروپیگنڈا مہم چلا کر سادہ لو عام بنگالیوں کوحقوق کے نام پر پاکستان کے خلاف کیا۔ مکتی باہنی بنا کر پاکستانی فوج پر حملے کئے۔ اپنی باقاہدہ فوج داخل کر کے پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے۔ہاں اس میں ہمارے مقتد حلقوں اورسیاسدانوں کا بھی قصور تھا۔ اُس وقت اندرا گاندھی نے کہا تھا۔ دو قومی نظریہ میں خلیج بنگال میں ڈوبا دیا ہے۔اس کے بعد ایک اورپاکستان کا غدار الطاف حسین بھارت کو مل گیا۔
الطاف حسین نے پاکستان بنانے والوں کی اُولادوں کو حقوق کے نام پر اکٹھا کیا۔پاکستان کا جھنڈا جلایا۔ بھارت جا کر کہا کہ ہندوستان کی تقسیم ایک تاریخی غلطی تھی۔ بھارت سے فنڈنگ لے کر اپنے دہشت گردوں کے ذریعے ، پٹھانوں، سندھیوں،پنجابیوں، بلوچوں، بلکہ پاکستان کی ساری قومیتوں کو دہشت گردی کر کے ہلاک کیا اور منی پاکستان کراچی سے نکلنے پر مجبورکیا۔ پاکستان کو ستر(٧٠) فی صد ریوینیو کما کے دینے والے کراچی میں سیکڑوں پرتشدد ہڑتالیں کر وا کے اسے تباہ برباد کر دیا۔ فوج نے تنگ آ کر اس کے خلاف آپریشن کیا۔ تو نا اہل وزیر اعظم نے ریلیف کے نام پرستر کروڑ روپے سے متحدہ قومی موومنٹ کی مدد کی۔ جب فوج نے ٹارگٹڈ آپریشن کیا تب کراچی میں امن قائم ہوا۔ کاروبار شروع ہو۔
کراچی میں لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ غدار وطن نے پاکستان کو ناسور کہا۔ پاکستان توڑنے کی بھارت اور امریکا سے درخواست کی۔ اپنے کارکنوں کو میڈیا پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اس پر رینجرز نے کاروائی کی۔دوسرے دن ڈرامہ کر کے اس کی پارٹی نے اس سے قطہ تعلق کر لیا۔ پورے پاکستان میں الطاف حسین کے خلاف سیکڑوں شہریوں نے غدادری کے مقدمات قائم کرنے کی ایف آئی کٹوائیں۔پاکستان سے غداری پر پاکستان کی قومی اسمبلی،سینیٹ،چاروں صوبائی اسمبلیوں،کشمیر اورگلگت بلتستان کی حکومتوں نے اس کے خلاف قرادادیں پیش کی کیں۔ وفاقی حکومت سے الطاف حسین کے خلاف آئین پاکستان کی دفعہ ٦ کے تحت غداری کامقدمہ قائم کرنا کا مطالبہ کیا۔ مگر ناہل وزیر اعظم نے ایک بار اس پر وفاقی حکومت کے ذریعے غدادری کا مقدمہ قائم نہیں کیا۔
صاحبو! مقافات عمل ہے کہ آج نواز شریف سیاست سے باہر ہو گیا ۔پاکستان کی فوج اور عدلیہ پر شاید ریلیف حاصل کرنے کے لیے دبائو ڈال رہا ہے ۔۔اب پھر سعودی حکومت کو کسی نئے این آراو کے لیے درمیان میں ڈال کر ریلیف حاصل کرنے کی بے سود کوشش نہ کرے۔ اُسے چاہیے کہ اب آرام کرے۔اسی میں اس کا بھلا ہے۔ اپنی سیاسی پارٹی کو سیاست کرنے دے۔