تحریر : عبدالرزاق پاکستانی حکومت گومگو کا شکار رہی کہ قومی کرکٹ ٹیم کو بھارت بھیجنا چاہیے یا نہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کیونکہ ہندوستان کی پر تشدد سرزمین سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو مسلسل دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں اور اس صورتحال میں کرکٹ ٹیم کو بھارت روانہ کرنا کسی بھی ممکنہ خطرے کا سبب بن سکتا تھا۔ ویسے بھی بھارت اک مدت سے کرکٹ کھیلنے پاکستان نہیں آیا اور ہمیشہ ہی پاکستان سے کرکٹ روابط کی بحالی پر پس و پیش سے کام لیتا رہا ہے حالانکہ پاکستانی حکومتوں کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان کرکٹ سیریز کا انعقاد ہونا چاہیے۔ اس سے نہ صرف دونوں ملکوں کی حکومت کو قریب آنے کا موقع ملتا ہے بلکہ عوامی سطح پر بھی باہم خوشگوار رابطوں کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔
ماضی میں تو کرکٹ ڈپلومیسی کا سہارا لے کر دونوں ممالک کے درمیان پیدا شدہ تلخیوں کو بھی کم کرنے کی مشق دہرائی جاتی رہی ہے لیکن جب سے بھارت میں مودی حکومت وجود میں آئی ہے ہندوستانی حکومت کا رویہ منافقانہ،عیارانہ اور مکارانہ روپ دھار چکا ہے۔ جنونی ہندووں کے کچھ بے لگام گروہ پاکستان کی نفرت میں ہر حد پھلانگتے دکھائی دیتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عالمی ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے انعقاد کا بگل بج چکا ہے۔
دنیائے کرکٹ کی معروف ٹیم پاکستان کو اس اہم ایونٹ میں شرکت کرنے کے لیے بھارت روانہ ہونا تھا لیکن دوسری جانب انتہا پسند ہندو اپنی سر توڑ کوششوں میں مصروف تھے کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کو اپنی نوعیت کے اس نہایت اہم ایونٹ سے دور رکھا جائے اور اپنی اسی خواہش کی تکمیل کی خاطر دھمکیوں کا طوفان برپا کرنے میں کوشاں دکھائی دئیے جبکہ بھارتی سرکار کا رویہ بھی پاکستانی کھلاڑیوں کی سیکیورٹی کے ضمن میں غیر مبہم رہاکیونکہ وہ پاکستان کو تحریری طور پر سیکیورٹی کی ضمانت دینے سے انکاری تھے۔
ICC T20 World Cup
ان حالات کو دیکھتے ہو ے حکومت پاکستان تذبذب میں مبتلا تھی کہ ٹیم کو بھارت روانہ کرنا چاہیے یا نہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایک جانب بھارت کرکٹ ٹیم کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنے سے کنی کترا رہا تھا تو دوسری جانب پاکستان کو دھمکا رہا تھا کہ اگر پاکستان نے مذکورہ ایونٹ میں شرکت نہ کی تو اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی ۔ یوں اک مرتبہ پھر بھارتی مخاصمانہ رویہ کھل کر سامنے آیا ہے ۔سوچنے کی بات ہے جب بھارتی سرکار ہی پاکستان دشمنی کا دم بھرتی ہو۔ کینہ اور بغض میں پیش پیش ہو تو وہ بپھرے ہوے جنو نیوں کوکیونکر کنٹرول کرے گی حالانکہ اگر بھارتی حکومت ان مٹھی بھر تشدد پسندوں کو قابو کرنا چاہے تو اس کے لیے کوئی مشکل امر نہیں ہے لیکن جب نیت ہی صاف نہ ہو تو ان جنونیوں کا حوصلہ بڑھنا لازمی بات ہے۔
اگرچہ اس صورتحال کے پس منظر میں ٹیم کو بھارت روانہ کرنا حکومت کے لیے مشکل فیصلہ تھالیکن میری دانست میں حالات کی اس سنگینی کے باوجود پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ورلڈکپ کے لیے بھیجنا پاکستان کرکٹ کے مستقبل کے لیے بہتر فیصلہ ہے ۔ کیونکہ اگر پاکستان مذکورہ ایونٹ میں شرکت نہ کرتاتو پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے کا اک جواز میسر آ جاتاجس کا سہارا لے کر وہ پاکستان کرکٹ کو مزید نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا اور آئی سی سی کا دباو بھی پی سی بی پر بڑھ جاتا جو پہلے ہی بھارت کی پشت پناہی کا تمغہ ماتھے پر سجائے بیٹھی ہے۔
پہلے ہی اک مدت سے کسی معروف غیر ملکی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا اور پاکستان کے میدان ویرانی کا منظر پیش کر رہے ہیں جس سے کرکٹ کے شائقین اور مداح بھی مایوس ہیں جبکہ میدانوں کی اس ویرانی سے پاکستانی کرکٹ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ۔اگر پاکستان میں غیر ملکی ٹیموں کی آمد کا تسلسل برقرار رہتا اور پاکستانی میدانوں میں کرکٹ کا میلہ سجتا رہتا اور میدانوں کی رونقیں بحال رہتیں تو پاکستان کی موجودہ ناقص کارکردگی بھی ا س حد تک تنزلی کا شکار نہ ہوتی۔
ایک ایسے ماحول میں جہاں مسلسل دھمکیوں کی برسات جاری ہے پاکستان کرکٹ ٹیم کا بھارت جانا اور پھر اچھا پر فارم کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں کیونکہ ان حالات میں یقینی طور پر ٹیم کے کھلاڑیوں پر نفسیاتی دباو ہو گا اور ان کی کارکردگی متاثر ہونے کے واضح امکانات ہیں اور پھر اب تو پاکستان کے چند شیڈولڈ پریکٹس میچز بھی منسوخ ہو چکے ہیں اور آئی سی سی نے پاکستان ٹیم کی ایونٹ میں شرکت کا شیڈول از سر نو ترتیب دیا ہے۔
Chaudhry Nisar
اگرچہ حالات ہر طرح سے پاکستان کے لیے ناموافق اور نا خوشگوار ہیں اور حکومت کے لیے کوئی فیصلہ لینا بھی مشکل تھا لیکن پاکستان کرکٹ کے روشن مستقبل اور بھارتی چالوں کو ناکام بنانے کی خاطر پاکستان کو خطرہ مول لینا ہو گا اور کرکٹ ٹیم کے ارکان کو بھی بلند حوصلہ کے سنگ بھارتی سرزمین پر اپنی یاد گار کارکردگی کی بدولت بھارت کو ایسا سبق دینا ہو گا کہ وہ اک مدت تک اس کاری ضرب کو بھلا نہ پائے۔پاکستانی کھلاڑیوں کو عہد کرنا ہو گا کہ سبز ہلالی پرچم کی سر بلندی کے لیے وہ اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوے فتح مند ہوں گے اور پھر وہ کیا منظر ہو گا جب بھارتی جنونی اپنی ہی دھرتی پر پاکستانی شاہینوں کو فتح سمیٹتے دیکھیں گے تو ان کے دل پر کیسے نشتر چل رہے ہوں گے۔
اگر پاکستانی حکومت موجودہ صورتحال کے تناظر میں یہ فیصلہ کرتی کہ پاکستان ٹیم کو بھارت نہیں بھیجنا چاہیے تو اس صورت میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو درپیش خطرات تو دم توڑ جاتے لیکن پاکستان کرکٹ کے مستقبل پر لگنے والی کاری ضرب شائد کئی سالوں تک بھی مندمل نہ ہونے پاتی۔ پاکستان کرکٹ کی بقا اور پی سی بی کو آئی سی سی کے دباو سے نجات دلانے کے لیے پاکستان کی بھارت روانگی ضروری تھی۔
علاوہ ازیں اگر پاکستان اس ایونٹ میں شرکت نہ کرتا تو پی سی بی کو مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا جس سے پاکستان میں کرکٹ سرگرمیوں پر قدغن لگ سکتی تھی اور پاکستان میں کرکٹ کانظام مزید کمزور ہو سکتا تھا اور نتیجے کے طور پر پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی مذید متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہو جاتا جو پہلے ہی تشویشناک صورتحال سے دوچار ہے۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہو ے پاکستانی حکومت نے دور اندیشی پر مبنی فیصلہ کیا ہے اس سے پاکستان کرکٹ کو فائدہ ہو گا اور پاکستان عالمی کرکٹ میں اپنی حیثیت منواتا رہے گا۔کرکٹ ٹیم اللہ کے بھروسے بھارت روانہ ہو چکی ہے اور انشااللہ قومی ٹیم وہاں سرخرو ہو گی۔