کراچی (جیوڈیسک) دھرنوں کی سیاست سے ملک کی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات ختم ہورہے ہیں۔ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں معیشت کو چیلنجز کاسامنا رہا، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی بحالی اور انتظامی نااہلیوں پر توجہ دی جائے۔
گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سرچارج افراط زر کی گراوٹ پر اثر انداز ہو گا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کی جائزہ رپورٹ جاری کردی ہے۔ رواں مالی سال کے ابتدائی مہینوں میں پاکستانی معیشت کو کئی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اوائل اگست کے دوران آئی ایم ایف کے ساتھ اجلاسوں میں توسیعی فنڈ سہولت کا چوتھا جائزہ مکمل نہ ہو سکا۔ رپورٹ میں اسلام آباد میں وسط اگست کے سیاسی واقعات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جنھوں نے ملک کی معاشی سرگرمیوں پر اثر ڈالا۔ ستمبر کے دوران پنجاب میں ملک کے اہم زرعی علاقے کا بڑا حصہ سیلاب کی زد میں آ گیا۔ خدشہ تھا کہ ان نقصانات سے تلف پذیر (perishable ) غذائی اشیا کی قیمت بڑھ جائے گی۔
جس سے گرانی کی توقعات میں تیزی آئی۔پہلی سہ ماہی میں جاری اور مالیاتی کھاتے میں زیادہ خسارے دیکھے گئے جنھیں ملکی وسائل سے پورا کرنا پڑا تاہم رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی کے دوران معیشت میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی ہے جس کے سال کے بقیہ حصے میں برقرار رہنے کا امکان ہے۔ رپورٹ کے مطابق حکومت نے مالیاتی اصلاحات نافذ کرنے کے لیے ایک وسط مدتی حکمت عملی تشکیل دی ہے جس میں محاصل کی پیداوار بہتر بنانے سے لے کر گھاٹے میں جانے والی پی ایس ایز میں نجی شعبے کی شرکت بڑھانے تک مختلف اصلاحات شامل ہیں۔
پاکستان ریلویز، جینکوز اور ڈسکوز کی تشکیل نوکے منصوبے بھی شروع کیے جا رہے ہیں تاکہ یہ پی ایس ایز پاکستان کی معاشی ترقی میں مثبت حصہ ڈال سکیں۔ تاہم ان منصوبوں میں تیزی لائی جانی چاہیے اور ان کی انتظامی و عملی نا اہلیوں اور مالیاتی شعبے اور بقیہ معیشت پر ان کے اثرات پر توجہ دی جانی چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق پہلی سہ ماہی میں ایف بی آرکی کارکردگی پست رہی سال کا ہدف پورا کرنے کے لیے 24فیصد ٹیکس وصولی بڑھانے کی ضرورت تھی تاہم پہلی سہ ماہی میں ٹیکس وصولی میں اضافے کی شرح 13.1فیصد رہی جس سے ایف بی آر پر باقی تین سہ ماہیوں کے دوران ٹیکس وصولی کے لیے دباؤ بڑھ گیا ہے پورے سال کا ہدف پورا کرنے کے لیے اب تین سہ ماہیوں میں 27فیصد اضافے کی شرح سے ٹیکس وصول کرناہوں گے۔ خام تیل اور پٹرولیم مصنوعات کی عالمی قیمت میں کمی پاکستان جیسے تیل درآمد کرنے والے ملکوں کے لیے خوش آئند ہے تاہم اس سے پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات پرٹیکس وصولیاں متاثر ہوں گی۔
رواں مالی سال اے بی ایل اور ایچ بی ایل میں حکومتی حصص کی نیلامی سے ایک ارب ڈالر سے زائد کی آمدن متوقع ہے جس سے حکومت کو بجٹ فنانسنگ کی طلب پوری کرنے کے ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پہلی سہ ماہی کے دوران حکومتی قرض پچھلے سال کے مقابلے میں کم رہا کیونکہ حکومت پی آئی بیز اور بچت اسکیموں کے ذریعے غیر بینک اداروں سے زیادہ قرض لے سکی۔ رپورٹ کے مطابق بینکاری نظام کے اندر حکومت نے مرکزی بینک کے بجائے کمرشل بینکوں سے زیادہ قرض لیا اور وہ بھی پچھلے برس کی اسی مدت کے مقابلے میں کم رہا۔ رپورٹ کے مطابق صنعتی شعبہ ملی جلی تصویر پیش کر رہا ہے۔
سیمنٹ کی زیادہ مقدار، فولاد کی درآمدات اور پی ایس ڈی پی کے زیادہ اخراجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی سہ ماہی میں تعمیراتی سرگرمیوں میں تیزی آئی۔ اس کے برعکس بڑے پیمانے پر اشیا سازی (LSM) کی نمو میں پہلی سہ ماہی کے دوران کمی درج کی گئی کیونکہ مقامی اشیا سازوں کو گیس کی قلت کا سامنا کرنا پڑا (خصوصاً کھاد، ٹیکسٹائل، کاغذ، شیشے اور چمڑے کے شعبوں میں)۔ مزید برآں، چین اور بنگلہ دیش سے دھاگے اور کپڑے کی پست طلب کی بنا پر ٹیکسٹائل میں بھی سست رفتاری ہے۔
مہنگائی بھی ابتدائی توقعات سے کافی کم رہنے کا امکان ہے کیونکہ حکومت بین الاقوامی نرخوں کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی خوردہ قیمتیں باقاعدگی سے گھٹا رہی ہے۔ رپورٹ میں مالیاتی خسارے کا ساختی جز کم کرنے کے لیے اہم اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔