تحریر : شیخ خالد زاہد ہمارے لئے اس وقت بہت دکھ کی بات ہوتی ہے، جب ہم اپنی نئی نسل کو وطنِ عزیز کا مکمل نام “اسلامی جمہوریہ پاکستان” بتاتے ہیں۔ بلکل اسی طرح کہ آپ کوئی بہت ہی خوبصورت سے “عنوان اور سرورق” کی وجہ سے کوئی کتاب خرید لائیں ہوں اور کتاب کہ مطالعے کا بعد آپ کو “عنوان اور سرورق” کہ برعکس مایوسی کا سامنا کرنا پڑے اور آپ کو کسی حد تک اپنی اس رائے کو تبدیل کرنا پڑے کہ یہ ضروری نہیں کہ لفافہ خوبصورت ہونا اس بعد کی دلیل ہے کہ اس میں سے نکلنے والی رقم بھی خطیر ہوگی۔ ہماری درسی کتابیں بدلتے ہوئے وقت اور بدلتی ہوئی دنیا کہ ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی جا رہی ہیں۔ ان نصابی تبدیلیوں کی بجائے اگر کچھ تبدیلی ہم (پاکستانی قوم) میں آجاتی تو پاکستان ایک ایسے خاموش انقلاب کی راہ پر نکل پڑتا جہاں صرف اور صرف “امن و سلامتی میں پوشیدہ ترقی” کی فضاء اڑتی پھرتی محسوس کی جاسکتی تھیں۔ لیکن ایسا ہو نہ سکا اور ہماری درسی نصابی کتابوں کو گاہے بگاہے تبدیل کرنے کا عمل جاری رہا اور اب ہماری نئی نسل قائدِ اعظم محمد علی جناح کو کراچی میں انکے مزار کی بدولت یا پھر نوٹوں پر موجود تصویر کی وجہ سے اور ان کے رہے سہے چودہ نکات رٹتے ہیں، قائدِ ملت اور مادرِ ملت جیسے الفاظ ذرا اجنبی سے معلوم ہوتے ہیں۔
انیسویں صدی میں پیدا ہونے والا “دوقومی نظریہ” آج تک سسک رہا ہے، اکثریت کا یہی خیال تھا کہ جس دن ہندوستان کی تقسیم ہوئی اسی دن دوقومی نظریہ حل ہوگیا تھا اور تاریخی دستاویزات کی شکل میں محفوظ کرلینا چاہئے تھا۔ غور کرنے سے ہمیں پتہ یہ چلا کہ اس دوقومی نظریہ کا اطلاق تو تقسیم ہند کے بعد یعنی پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد نافذالعمل ہونا تھا۔ جسے باآور کرانے کی بجائے یکسر نظر انداز کروادیا گیا اور ہم تقسیم ہونے کے باوجود ایسی انگنت اقدار اور چیزیں جن کو ترک کرنے کیلئے جن سے علیحدہ ہونے کیلئے ہمارے آباؤاجداد نے اپنے جان و مال کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا ہم آج بھی اپنے سروں پر تاج کی مانند سجائے گھوم رہے ہیں۔دوقومی نظریہ دو مذاہب، دو تہذیبوں، دومختلف اقدار اور بہت ساری علامتوں کی واضح تقسیم کی دلیل ہے۔ کوئی بھی ایک عام مسلمان یا ہندو دوقومی نظریہ کو نظر انداز یا اس کی حقیقت سے انکار کر ہی نہیں سکتا اور اگر کوئی بہت سیکولر ہونے کا دعوا کرتا ہے تو پھر بھی اسکے کیلئےبہت ساری ایسی پیچیدگیا ں موجود ہیں جنہیں وہ کبھی بھی صحیح ثابت نہیں کرسکتا۔ 14 اگست 1947 کو ہندوستان کی تقسیم کا پہلا عمل پاکستان کی صورت میں ہوا اور اگلے ہی دن ہندؤں نے 15 اگست 1947 کو دوہری (مسلمانوں اور انگریزوں) آزادی اور تقریباً ہزار سالہ غلامی سے نجات حاصل کی (آج ہم انکی تکلیف سمجھ سکتے ہیں)۔
دوقومی نظریے نے نظریہ پاکستان کو جنم دیا، نظریہ پاکستان کیلئے تحریکِ پاکستان چلی اور اس تحریک کی مرہونِ منت انگنت قربانیوں کے طفیل تحریک اپنی مقصدیت کر پہنچی اور “اللہ کا احسان پاکستان” وجود میں آگیا۔ اب پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے والوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ اب صرف اور صرف ایک نکاتی نظریے کو نافذ العمل کرنے کیلئے کمر کس لیں مگر یہ ہونا سکا اور بات بگڑتے بگڑتے اتنی بگڑ گئی کہ اب 70 سال بعد دہراتے ہوئے بھی عجیب سا لگتا ہے۔اس نظریہ اسلامی سے دوری کے نتائج ہم آج تک جھیل رہے ہیں اور ہمیں اس نظرئیے سے دور کرنے والے گھسیٹ گھسیٹ کر دور کئے جا رہے ہیں۔ نظریہ پاکستان سے دور ہونے یا اسکو نا اپنانے کی مرہونِ منت پاکستان دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا اور خطے میں نفرت کا ایک نیا بیج بو دیا گیا۔ آج ہمارے دشمن غیر اسلامی ممالک تو ہیں ہی مگر ہمیں سب سے زیادہ خطرہ اپنے ہم مذہب پڑوسی ممالک سے ہے جو ہم سے برملا نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور جو بطور کسی اور کے الائے کار بن کر ہمارے خلاف زہر تو زہر اگل رہے ہیں بلکہ اپنی سرحدیں اپنی زمینیں پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں کو کھلے دل سے فراہم کر رہے ہیں۔ افتراق وانتشارہراجتماعی وحدت میں آسانی سے گھس کراس کوکمزورکردیتے ہیں۔
آج بھارت اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا سیکولر ملک کہتا ہے جو کہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ بھارت نے پہلے دن سے ہی ہندوعزم کے نظرئیے کی داغ بیل ڈال دی تھی جس کی سب سے بڑی دلیل موہن داس کرم چند گاندھی کا بیہیمانہ قتل ہے۔ کانگریس جو بھارت کی سیکولر جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے آج وہ کہاں کھڑی ہے اور حکمران جماعت اور اس جماعت کا منتخب کردہ وزارتِ عظمہ کی گدی پر براجمان شخص کی حیثیت انتہا پسند ہندوؤں کی فہرست میں نمبر ایک ہے جس کی بدولت انہیں یہ کرسی مہیہ کی گئی ہے۔ انہوں نے جو چاہا وہ پا لیا۔ انہوں نے آزادی بھی ہماری قربانیوں پر حاصل کی اور آج اپنے ملک کو بھرپور ہندوستان بنا لیا ہے۔ جس کی گواہی کھیل کے میدانوں میں، میڈیا سے لے کر دفتروں اور جہاں ممکن ہوتا ہے انہوں نے اپنے بھگوان بیٹھا رکھے ہیں۔ دنیا کے کسی قانون نے ان پر انتہا پسندی اور مذہبی دہشت گردی کا کوئی الزام لگایا ہو بلکہ دنیا خود انکی ثقافت جو مذہب سے ہی پھوٹتی ہے رنگی جا رہی ہے۔ ایک ہم ہیں کہ اپنی ثقافت اپنی تہذیب کو لے کر شرمندہ سے نظر آتے ہیں کسی کو “سلام” کرتے سوچتے ہیں کہیں یہ نا سمجھے کہ میں کوئی مذہبی مزاج کا آدمی ہوں، ہم بزدل تھے نہیں ہماری گردنوں میں آسائشوں کے طوق ڈال کر بلکل کہولو کے بیلوں سا بنا دیا ہے، ہم اپنی بقا کی جنگ تو بہت دور کی چیز ہے ہم بات کرنے کیلئے تیار نہیں۔ ہم بے حسی کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں اور اب ہمیں یہاں سے نکالنے والا بھی کوئی نہیں کیوں کہ جو نکالنے کی کوشش بھی کرتا ہے اس کے گلے میں بھی وہی آسائشوں کا طوق پہنا کر اسی دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کو پچھلے 70 سالوں میں نا تو اسلام ہی ملا اور نا ہی عوامی جمہوریت میسر آئی بہر حال عسکری جمہوریت اس ملک میں خوب پلی بڑی۔دوقومی نظریہ بھی ذیرِ بحث رہا اور دیگر تحریک پاکستان کہ رہنماؤں کی مذہبی رجحانات پر بھی شک کی نگاہ ڈالی گئی ۔ ہمارا دشمن بہت دانشمندی سے ہمیں ہی ہمارے خلاف استعمال کرتا چلا جا رہا ہے اور ہم استعمال ہوئے جا رہے ہیں۔
ہماری ناقص اور پسماندگی کا شکار “عقل” ہمارے سامنے سوالیہ نشان بن کر کھڑی ہے کہ دنیا کو جمہوریت کی راہ پر گامزن کس نے کیا، کس نے انسانوں کو انسانیت کا درس دیا اور کس نے وہ قوانین اخذ کئے جس کہ تحت دنیا انسانوں کے رہنے کی جگہ بن پائی کیا یہ سب کچھ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کی بدولت ہی ممکن ہوسکا۔ پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی اسلام دشمن عناصر نے خلافت کو ترک کروایا۔
ہم نے سیاست کو اخلاقیات سے تو پہلے ہی ماورا قرار دےدیا ہے کہیں سے “اوئے” کی صدا گونجتی ہے تو کوئی “پھٹیچر” جیسے الفاظ بلند و بانگ فضائی آلودگی میں اضافہ کرتے سنائی دیتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام “مملکتِ اسلامیہ پاکستان” ہونا چاہئے تھا۔ ہمارے نظریات کو دنیا جہان کے قرضوں کا کفن پہنا کر لسانیت کی گمنام زمین میں دفن کردیا گیا۔ “نظریاتی مملکت” نظریات ہی ڈھونڈتی رہ گئی ہماری نسلیں اب ہم سے سوال ہی پوچھتی رہینگی کہ آخر یہ نظریہ کس بلا کا نام ہے کہ جس کی بدولت انگریزوں اور ہندؤں سے آزادی حاصل کر لی۔ بتائیں اس نظریہ کو پاکستان کیوں نہیں لائے اور یہ کن لوگوں کو پاکستان کی باگ ڈور تھما دی؟ وہ جو نظریات سے بھرپور آنکھیں تھیں وہ کہاں رہ گئیں۔ بغیر کسی جواب کہ ہم صرف اتنا ہی کہہ سکینگے کہ سارے کہ سارے نظریات نظریہ ضرورت کی بھینٹ چڑھ گئے اور اب اس سے بڑا اور اہم کوئی “نظریہ” پاکستان کی ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ اللہ رب العزت پاکستان کو ایک بار پھر نظریات کی پاسدار ہری بھری فصل عطاء کرے (آمین)۔