تحریر : ابو الہاشم ربانی ہندو مسلم الگ الگ نظریات کی حامل دو قومیں ہیں۔ دونوں کے مفادات الگ، خیالات و نظریات الگ، رجحانات جدا جد۔ تاریخ و تمدن، آداب و رسوم، اطوار و اخلاق، خوراک و پوشاک، مساوات اور اسکا تصور، سرمایہ اور اس کا استعمال مختلف غرض یہ کہ ہر مادی اور روحانی جز جو کہ زندگی پر کسی طریق سے اثر ڈال سکتا ہے، ہندوؤں سے مختلف ہے۔ مسلمانوں کی دنیا الگ ہے اور ہندو کا سنسار جدا۔ تخلیق آدمیت سے لے کر اب تک اسی چیز کا نام حق و باطل یعنی دوقومی نظریہ ہے۔ اسی جذبہ پر لاکھوں مسلمانوں نے تقسیم برصغیر کے وقت جام شہادت نوش کیا ۔ طرح طرح کے ظلم و ستم کو سینے سے لگایااور ہندوستان کے تین کروڑ مسلمانوں کو اپنا سب کچھ لٹا کر ایک نئے ملک ’’پاکستان‘‘ کی طرف ہجرت کی۔
یہی وہ دو قومی نظریہ ہے جو پچھلے 130 سالوں سے کشمیریوں کی طاقت بنا ہوا ہے۔ کشمیر کے لوگ مسلمان ہیں اور اسلام پر جان نچھاور کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ انڈین فوج کے ظلم و جبر نے کشمیر یوں کے دلوں سے خوف کے سائے چھین کر انہیں ایمان و یقین کا علمبردار بنا دیا ہے۔ اگر آج کشمیری یہ اعلان کر دیں کہ ہمیں پاکستان سے الحاق نہیں کرنا ہے اور نہ ہی ہمیں اسلام کی بنیادوں پر آزادی چاہیے ہمیں انڈیا کے ساتھ رہنا منظور ہے۔ تو انڈیا کشمیر میں دودھ کی نہریں بہا دے گا۔ مگر کسی ایک کشمیری نے بھی دنیوی عیش و آرام کو اسلام، آزادی اور دو قومی نظریہ پر ترجیح دی ہو یا اپنے ایمان سے دغا کر کے ہندوؤں کی آغوش میں پناہ لی ہو۔
وہ کون سی ایسی قربانی ہے جو کشمیریوں نے اسلام کی خاطرنہیں دی؟ وہ کون سا ایسا ظلم ہے جو کشمیریوں نے حق کی خاطر برداشت نہیں کیا ۔ وہ کون سا ایسا قہر ہے جو ان پر پاکستان سے الحاق کے جرم میں ڈھایا نہ گیا ہو۔ وہ کون سی ایسی وحشت ہے جس کا سامنا کشمیریوں نے اسلام کے لیے نہ کیا ہو۔ چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے کشمیریوں کا ایک ہی نعرہ ہے کہ ’’ پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الا اللہ محمد رسول ﷺ اللہ‘‘ اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کشمیریوں کا یہ نعرہ آج سے نہیں ہے ۔ یہ تب بھی تھا جب 1944ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کا دورہ کیا تھا۔
قرارداد لاہور کو پاس ہوئے صرف چار سال ہوئے تھے اور مسلم لیگ کی کارکردگی تسلی بخش جارہی تھی کہ کشمیرکی دو سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس نے دورہ کشمیرکے لیے قائد اعظم کو دعوت دی۔ قائد اعظم متحدہ ہندوستان کے پہلے اور واحد لیڈر تھے جنہیں ریاست جموں و کشمیر کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے دورے کے لیے دعوت دی تھی۔ یہ ہی نہیں کشمیری حکومت کے وزیراعظم سربینی گالی نرسنگ راؤ نے بھی سرکاری سطح پر قائد اعظم کو دعوت نامہ بھیجا۔ پھر قائد اعظم کا کشمیر پہنچے پر جو شاندار استقبال کیاگیا وہ اس بات کی واضح دلیل تھا کہ کشمیر کی عوام بھی اپنے آپ کو فقط پاکستانی کہلوانا چاہتی ہے۔ چنانچہ سوچیت گڑھ سے جموں تک اور جموں میں قیام کے بعد بانہال سے سری نگر تک قائد اعظم کا جو شاندار استقبال ہوا وہ اب تک کشمیر کے راجہ، مہاراجہ یا انگریز سرکار کے کسی افسر کے حصے میں نہیں آیا تھا۔ اس استقبال کے بعد ایک غیر ملکی مبصر نے لکھا تھا کہ اگرچہ گاندھی اور نہرو بیرونی دنیا میں ہندوستان کی تحریک کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں لیکن حقیقت میں ہندوستان کے سیاسی سٹیج پر مقبول اور زور دار شخصیت محمد علی جناح کی ہی ہے۔ اپنے استقبال میں قائد اعظم نے ایک ایسا جملہ کہا جس نے کشمیریوں کو پاکستان کے حق میں یک جان و یک قالب کر دیا۔ قائد اعظم نے کہا ’’ کشمیر کے لوگو! آپ نے استقبال محمد علی جناح کا نہیں کیا بلکہ ہندستان میں مسلمانوں کی آزادی کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کا کیا ہے۔‘‘ اس جلسہ میں سری نگر سے باہر میر پور، پونچھ، مظفرآباد، گلگت ، لداخ، جموں اور کشمیر کے گردو نواح سے بھی لوگ آئے تھے۔
اخبارات کی اطلاعات کے مطابق جلسہ میں ایک لاکھ افراد شریک ہوئے تھے۔ کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار کسی جلسے میں عورتیں بھی شریک ہوئیں جن کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی۔ یہ بھی اطلاع ملی کہ سری نگر کے تمام سرکاری ملازم مسلم پارک کے ارد گرد پرائیویٹ مکانوں میں قائد اعظم کی تقریر سن رہے تھے۔ اس جلسے کا اثر اتنا گہرا ہوا کہ وہ لوگ جنہوں نے اب تک پاکستان کے ساتھ الحاق کے بارے میں کوئی خاص ذہن نہیں بنایا تھا وہ بھی پاکستان کے حامی بن گئے۔ قائد اعظم نے کشمیر کے لوگوں میں جذبہ آزادی اُبھارتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’ ہمارا اللہ ایک، ہمار رسول ﷺ ایک، کتاب ایک اور دین ایک تو ہماری تنظیم اور قائد بھی ایک ہونا چاہیے۔ قائد اعظم کے اس جلسہ سے لے کر آج تک کے تمام جلوسوں میں کشمیری حریت قائدین کا ایسے ہی استقبال کرتے ہیں۔ جلسہ گاہ میں ان کی تعداد اسی قدر ہوتی ہے سامعین کے آزادی کے نعرے بھی اسی جوش و خروش سے ہوتے ہیں آزادی کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔آج قائدین کی تقریروں میں جذبات اور پیغام بھی وہی ہوتے ہیں۔
دشمن آج پھر نظریہ پاکستان پر حملہ آور ہے۔ اس کے ہرکارے اپنے آقاؤں کی جانب سے کیے جانے والے پراپیگنڈے کو وطن عزیز میں پھیلانے میں مصروف عمل ہیں۔ دشمن کے ہاتھوں استعمال ہونے والے یہ جانتے ہی نہیں کہ وہ عظیم نظریاتی ریاست پاکستان کا کتنا بڑا نقصان کر رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنے کی سر توڑ کوششیں جاری ہیں۔ اللہ کے فضل سے وہ ایسا نہیں کر پائیں گے کیوں کہ کشمیر کی ’’ک‘ ‘ شہ رگِ پاکستان ہے ۔ خونی لکیر (LOC) کے دونوں جانب بسنے والے لوگ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کشمیر کے بغیر پاکستان ادھورا ہے ۔ تحریک آزادی کشمیر در اصل تکمیل پاکستان کی تحریک ہے۔ کشمیری صرف اسلام کی وجہ سے پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور اسی وجہ سے پاکستان ہی سے الحاق چاہتے ہیں۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے۔ اقوام متحدہ نے 1948ء میں جو کشمیریوں سے حق خود ارادیت کا کہا تھا۔ اقوام متحدہ اور عالمی قوتیں مل کر مظلوم و مقہور کشمیریوں کو وعدہ کے مطابق ان کا حق دلائے۔ یہ اقوام متحدہ کی ذمہ داری بھی ہے اور عہد کی پاسداری بھی۔ اللہ تعالیٰ کشمیریوں کو جلد آزادی کی نعمت عطاء فرمائے۔ آمین