ملک کے عام شہری اس وقت اگر سیاست سے متنفر ہیں یا سیاست دانوں پر بھروسہ نہیں کرتے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ سیاست دان صرف ووٹ لینے کے لئے چاپلوسی کرتے ہیں لیکن منتخب ہونے کے بعد وہ طاقت کا مرکز و محور عوام یا ان کے منتخب اداروں کو سمجھنے کی بجائے طاقت کے دیگر مراکز کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس ہنگامی صورتحال کاملک اور اسلام دشمن قوتیں فائدہ اٹھائے ہوئے چندشرپسند عناصر کے ذریعے اداروں کے مخالف تقاریر، مظاہرے ، ہنگامے کرواتے ہیں۔عراق ،شام ، فلسطین ،ایران سمیت دیگرممالک میں زندہ مثال ہیں ۔شریف خاندان کے خلاف مقدمات سامنے آنے کے بعد متعدد باربھارتی فورسزنے پاکستانی پر فائرنگ کی جس کے نتیجے متعددشہری شہید ، کئی زخمی ہوگئے ۔ شریف خاندان کی جانب سے عدلیہ سمیت تمام اعلیٰ اداروں کے سربراہان پرالزامات کی بارش کی گئی جس عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو شدید نقصان پہنچا۔ ترقی کا دعویٰ کرنے والے پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ملکی خدمات کو بھی نظر اندازنہیں کیا جاسکتا کیوں انہوں نے اپنی ملکی خدمات کے نام پر مہنگائی اور بے روزگاری کے غربت نے ہمارے نوجوانوں کے چہروں کی رونقیں چھین لی ہیں،حالات لمحہ بہ لمحہ کسی خطرناک موڑ کی سمت بڑھ رہے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر ابھی تک ہم منزل تک پہنچنے کا راستہ تلاش کررہے ہیں اور ہم سے دو سال بعد 1949ء میں انقلاب کی منزل سے ہمکنار ہونے والا ملک چین سپر پاور بن چکا ہے۔ پاکستان بنا تو ڈالر ایک روپے کا تھا اور آج 116روپے کا ہو چکا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلم حکمرانوں نے غیر مسلموں کا ہر طرح سے خیال رکھا، رواداری، مذہبی حقوق اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز کرنے کے لیے منافرت اور مذہبی تعصب سے بالاتر ہوکر ان کے حقوق کی ادائیگی میں پیش پیش رہے، حضرت عمر فاروق کے زمانے میں بھی انھیں ہر قسم کی آزادی دی گئی حتیٰ کہ انھیں مقامات مقدسہ کی زیارت کی بھی مکمل اجازت تھی۔مسلمانوں کے زوال کا یہ عالم ہے کہ پچپن اسلامی ممالک اور ایک ارب مسلمانوں کی تعداد سپر طاقتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور ان کا حکم ماننے پر مجبور ہیں، ہر دوسرے تیسرے سال بعد کسی ایک اسلامی ملک پر سازش کے تحت حملہ کرتے اور اس ملک کے معصوم نہتے باشندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، اس کی وجہ مسلم امہ کا اتحاد پارہ پارہ ہوچکا ہے۔مذہب و ملت کے تحفظ سے بے فکر ہوکر تعیشات زندگی کو اپنا نصب العین بنا لیا ہے، دولت پیسے کی کمی نہیں ہے اور جو اسلامی ممالک غریب ہیں انھیں امداد میسر آجاتی ہے اور وہ غیروں سے مدد حاصل ہونے کے بعد مغرب و ناانصافی کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
پاکستان میں پہلے جب عدلیہ کا فیصلہ آیا تھا کہ پانامہ کیس پر جے آئی ٹی بنائی جائے گی اس وقت مسلم لیگ (ن) والوں نے خوب مٹھائیاں تقسیم کیں اور مٹھائی نواز شریف نے بھی کھائی تھی اب وہ عدلیہ کے فیصلے کو کیوں تسلیم نہیں کرتے، اور اب کیوں عدلیہ سے محاذآرائی کررہے ہیں اور تحریک چلانے کی دھمکی دے رہے ہیں، ماہرین کا خیال ہے کہ وہ نوازشریف اس لئے اداروں کے خلاف ہے کہ وہ اب نواز شریف کوئی تحریک چلا سکیں گے کیونکہ اب وہ سیاست میں کمزور ہوچکے ہیں اور ہمیشہ کیلئے نااہل ہوچکے ہیں۔سپریم کورٹ کی طرف سے سابق سینیٹر نہال ہاشمی کو عدلیہ مخالف تقریر پر نااہل قرار دینے اور قید کی سزا دے کر جیل بھیجنے کے علاوہ دو وفاقی وزرا کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری ہونے کے باوجود نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے عدلیہ کے رویہ کے بارے میں تند و تیز لب و لہجہ برقرار رکھا ہے۔اور نواز شریف اپنی سیاسی جد و جہد میں ہر اس ادارے سے ٹکرانے کا اعلان کررہے ہیں جو ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرے گا۔ نواز شریف تیس پینتیس سال سیاست میں گزار چکے ہیں اور تین مرتبہ ملک کا وزیر اعظم رہ چکے ہیں لیکن ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے سابق فوجی آمر ضیاء الحق کا حوالہ ضرور دیا جاتا ہے کیوں کہ ضیاء کے دور میں ان کی اعانت اور سرپرستی سے ہی نواز شریف کو سیاست میں پاؤں جمانے کا موقع ملا تھا۔
تاہم اس صورت حال میں نواز شریف عدالتوں کے حوالے سے خواہ کیسا ہی مؤقف اختیار کریں اور ان کی باتیں خواہ کیسے ہی اصولوں پر استوار ہوں ، انہیں پرکھتے ہوئے مخالفین کے علاوہ ان سے ہمدردی رکھنے والوں کو بھی ایک دفعہ تو سوچنا پڑے گا کہ اگر انہیں ان اندیشوں کا ادراک تھا تو جب انہیں اسمبلی میں اکثریت ملی اور ملک میں جمہوری روایت اور اداروں کی حدود متعین کرنے کا موقع ملا تو وہ اس میں کیوں ناکام رہے۔مکافات عمل کا یہ آئینہ البتہ صرف نواز شریف کا بھیانک چہرہ ہی سامنے نہیں لاتا بلکہ اس میں ملک میں سیاست کرنے والے بیشتر لیڈروں کو اپنی ایسی ہی بگڑی ہوئی شکلیں ہی دکھائی دیں گی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی قوم کواپنے مستقبل کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنے چاہئے کیونکہ یہ پاکستان دنیا میں واحد راست ہے جس کی پہچان اسلام ہے ۔اسلام دشمن قوتیں موقع کی تلاش میں کب اسے حالات پیداہوں جب وہ عراق ، شام ،فلسطین کی طرح حملے کرکے پاکستان کے قدرتی وسائل پر قبضہ ہوجائیں ۔کسی ایک شخص کی خاطر قومی اداروں پر حملے ، ہنگامے ، مظاہرے ، تصادم آنے والی نسلوں کے کھلی ملک دشمنی کا ثبوت ہیں ۔اسے لئے ہمیں اپنے قومی اداروں اوروطن کی حفاظت کے لئے ملک کی بہتری کیلئے اچھااقدامات کرنے والوں کا ساتھ دینا ہو گا۔سیاسی پارٹیوں کے سربراہ آتے جاتے رہتے ہیں۔