کاروان کا قومی جرگہ

 jirga

jirga

تحریر : وقار احمد اعوان
تاریخ دانوں کے مطابق جرگہ کی تاریخ 4000 سال پرانی ہے، جس نے وقتاً فوقتاً اپناارتقائی سفر طے کیا تاہم آج بھی دنیا بھر میں پختون جرگہ اپنی بہترین روایات کی وجہ سے مشہور ہے، جس کی مثال پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ملتی ہے، اسی جرگہ کو آج یورپ نے اپنا کر اسے ”جیوری” کا نام دے دیا ہے، جرگہ جوکہ پختونخوں کی بہترین روایات کا امین ہے ،ہر دور میں کامیابی سے اپنا سفر طے کرتا ہوا آج اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔بہرحال یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں نہ صرف معاشرتی مسائل انتہائی بڑھ چکے ہیںجبکہ سیاست کابھی برا حال ہے حالانکہ سیاست کہیں بھی خم و پیچ سے عاری تو نہیں ہوتی لیکن پاکستان کی سیاست تو ایک عجیب گو رکھ دھندا ہے۔

کبھی اس میں حکومت کا عمل دخل اور کبھی فوج کی دراندازیاں۔ ہمارے سیاستدانوں نے کبھی اپنے منصب کے شایانِ شان کر دار ادا نہیں کیا ان کی وفاداریاں چڑھتے سورج کے ساتھ ساتھ رہیں اور وہ اس کے لیے بڑے دھڑلے سے یہ توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہو تی۔ پیسوں کی تقسیم اور قبولیت دونوں افسوسناک عوامل ہیں لیکن دکھ اور افسوس اسی بات کا ہے کہ ہمارے ملک میں بات ضمیر کی نہیں مانی جاتی یا اسے بڑی آسانی سے گروی رکھ لیاجا تا ہے۔ سینٹ کی نشستوں کے لیے پیسے کا بے دریغ استعمال کیاجاتاہے۔ ووٹ ضمیر کی آواز کے مطابق نہیں بلکہ رقم کے مطابق دیئے جاتے ہیں ۔تاہم پریشانی یہ ہے کہ قوم اپنے اس ایوانِ بالا سے کیا توقع رکھے جہاں پہنچنے والوں نے خود خریدوفروخت کر کے اپنی سیٹ خریدی ہوں اور جب وہ اس ملک کی قسمت کے فیصلے کریں گے تو کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ واقعی ملکی ضروریات اور مفادات کے مطابق فیصلے کریں گے نہ کہ اپنی ذات کے لیے اور اپنے فوائد کے لیے۔سیاست میں اختلاف رائے اپنی جگہ لیکن اسے دور کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے پارٹی کی تبدیلی کوئی قابل فخر بات نہیں اور اگر ایسا کیا جائے تو پھر ببانگ دہل کیا جائے نہ کہ بظاہر تعلق ایک کے ساتھ اور بباطن ووٹ کسی اور کے لیے ۔ایک عام آدمی کی مجبوری کو تو سمجھا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنا ووٹ اپنی مرضی کے خلاف کسی ایسے امیدوار کو دے دیا جو اس کے لیے قابل بھروسہ نہیں یا اس نے یہ حق اپنے دل کی آواز کے مطابق استعمال نہیں کیاتو یقینا اس کی کوئی مجبوری ہوگی لیکن کروڑوں کے یہ مالک ممبران صرف ہل من مزید کی خواہش میں ایسا کرتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر ہمارے سیاستدان دو لاکھ اور پانچ لاکھ کے لیے بھی ہاتھ آگے بڑھا دیتے ہیں۔ اس میں لینے اور دینے والا دونوں مجرم ہیں لیکن لینے والا نہ لے تو دینے والا کس کو دے۔

بہرحال یہ بھی اندھی حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام اپنا ووٹ صحیح استعمال نہیں کرتے۔اسی غرض سے صوبہ خیبرپختونخوا کی سماجی تنظیم ”کاروان ”نے ”کاروان قومی جرگہ”بنانے کافیصلہ کیا۔جس کامقصد آئندہ قومی مسائل کے حل کے لئے خاطرخواہ حدتک متعلقہ اداروںکو بہترین تجاویز اور اس کا حل پیش کرنا ہے۔اس حوالے گزشتہ روز پشاورکے ایک مقامی ہوٹل میں کاروان کے چیئرمین اورمعروف سماجی رہنما خالد ایوب کی صدارت میںایک اجلاس بلایا گیا۔جس میں صوبہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی تمام شعبہ ہائے سے شخصیات نے بھرپور شرکت کی۔تقریب میں شریک نے باری باری اپنی تجاویزپیش کیں نہ صرف یہ بلکہ ساتھ اپنی اپنی خدمات بھی کاروان قومی جرگہ کے سامنے رکھیں کہ کون کیا کرسکتا ہے۔اس لئے امر خوش آئند تھا کہ کاروان قومی جرگہ کو مختلف شعبہ جات سے اہل اور سمجھ دار لوگ ملنے لگے ہیں۔کاروان کو دی جانے والی تجاویز کی فہرست تو کافی طویل ہے تاہم اس کا خلاصہ یہ ہے کہ موجودہ دورمیںپاکستانی سیاست اس نہج کوپہنچ چکی ہے کہ جس میں مزید تجربات کی کوئی جگہ نہیں۔اب اگر کچھ کرنا ہے تو عملی کیونکہ گزشتہ 70سالوںمیںبھی پاکستان میں اقرباء پروری،رشوت ستانی ،کرپشن ،سفارش ،لوٹ مار جیسے مسائل ختم نہ ہوسکے۔

ایسے میں مزید تجربات یقینا پاکستان ،پاکستانی عوام اور خاص طورسے پاکستانی سیاست کے لئے نقصان دہ ہیں۔آج بھی زندگی کے ہر شعبہ میں اقرباء پروری عروج پرہے،کاروان مستقبل میں اس بارے بہترین حکمت عملی اور اسکے تدارک کا ارادہ رکھتاہے۔اجلاس میں شریک معروف قانون دان کاکہنا تھاکہ میں اپنی خدمات ملی جذبے کے تحت پیش کرتاہوںاس سے قبل بھی میںکاروان کے بینر تلے کئی غریب اور بے بس سائلین کی قانونی امداد کرچکاہوں اورمزید بھی کرناچاہتاہوں۔یادرہے کہ کاروان گزشتہ 20سالوںسے معاشرہ کی بدحالی کے سدھارکے لئے کام کررہی ہے۔اس تحریک کے بانی معروف سماجی رہنما خالد ایوب ہیں جو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر علاقائی،صوبائی اور ملکی مسائل کے ٹھوس حل کے موثر اوربہترین اقدامات اٹھا رہے ہیں۔

اس سے قبل بھی کاروان کئی قسم کے مسائل کے لئے نہ صرف آواز اٹھا چکی ہے بلکہ ساتھ ان کے بہترین کے لئے بھی ہمہ وقت کوشاں رہی ہے۔اب جبکہ کاروان کے زیر اہتمام قومی جرگہ تشکیل پانے جارہاہے اس لئے ان تمام باتوںکا لحاظ وپاس رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہوگی۔کاروان قومی جرگہ کے لئے تجاویز کچھ اس انداز میںپیش کی گئیں۔جیسے کاروان کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے والے اپنی اپنی خدمات کو ملی جذبہ کے تحت سرانجام دیںگی،یہ جذبہ وقتی نہیں بلکہ کل وقتی ہونا چاہیے تاکہ کسی بھی قسم کاکوئی اعتراض باقی نہ رہے۔کاروان میں شامل تمام ممبران وقتاً فوقتاً اپنے اپنے علاقائی مسائل زیر غور لائیںتاکہ ان کے بہترین حل کے لئے کوششیں کی جاسکیں۔کاروان کے ممبران کے پاس کسی بھی جماعت یا تنظیم کاکوئی عہدہ وغیرہ نہ ہوگا۔اگرکوئی کاروان کی مختلف سرگرمیوںکے لئے اپنا حصہ یعنی (چندہ) کی صورت میں دینا چاہتا ہے تو اس پر کوئی قدغن نہیںہوگا۔کاروان قومی جرگہ میںہرشعبہ سے ایک جوان اور ایک عمر رسیدہ ممبر لیا جائے گا تاکہ دونوں افراد کی یکساں نمائندگی ہوسکے۔کاروان قومی جرگہ میں خواتین ونگ کا ایک بہترین نیٹ ور ک ہوگا۔چونکہ موجودہ دور میڈیا کاہے کہ جس کے بغیر اچھے سے اچھا کام بھی ادھوراہوتا ہے اس لئے کاروان قومی جرگہ میڈیا سیل کوجدید خطوط پر استوار کرے گا۔قومی اداروںمیں اقرباء پروری ،سفارش،لوٹ مار،سفارش اورکرپشن کا بازار گرم ہے،کاروان ہر قومی ادارے سے ماہرین کی خدمات حاصل کرے گا۔تاکہ کسی بھی ادارے کے مسائل کو باریک بینی سے دیکھا او راس کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جاسکیں۔مذکورہ بالا تجاویز یقینا مستقبل کے لئے خوش آئند ثابت ہوسکتی ہیں اگران پر کاروان قومی جرگہ بہترین حکمت عملی اختیارکرے۔کیونکہ عام انتخابات قریب ہیں اور اس سے پہلے کہ ماضی کی روایات دہرائی جائیں جاگنے اور کچھ بہتر کرنے کی اشدضرورت ہے۔

کاروان قومی جرگہ مستقبل میں مختلف شعبہ جات سے ماہرین کی خدمات کرے گا ،جن کی بدولت آئندہ عام انتخابات میں اہل اورپڑھے لکھے لوگوںکا چنائو ممکن ہوسکے گا۔اسی طرح قومی اداروں سے عوامی روابط کے قیام کے لئے کاروان قومی جرگہ اپنی خدمات پیش کرے گا۔کیونکہ کاروان قومی جرگہ میں شامل ماہرین اپنے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے علاقائی،صوبائی اور قومی مسائل کا حل تلاش کریںگے۔نہ صرف یہ کہ کاروان قومی جرگہ صوبہ خیبرپختونخواکے مسائل کے حل کے لئے اقدامات اٹھائے گا بلکہ مستقبل میںاس کا دائرہ کار مزید دیگر صوبوںتک بھی بڑھایا جائے گا۔یقینا مذکورہ تمام کاوشوںکا سہرا کاروان کے چیئرمین اور معروف سماجی رہنما خالد ایوب کے سر ہے کہ جن کی لازوال قربانیاں پاکستانی معاشرہ کے لئے کارگو ثابت ہونگی اور جنہیں پاکستانی ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

Waqar Ahmad

Waqar Ahmad

تحریر : وقار احمد اعوان