تحریر: محمد صدیق پرہار سپریم کورٹ نے تمام وفاقی اداروں کو اپنی پالیسیاں اور قوانین کا اردو ترجمعہ شائع اور آویزاں کرنے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ کو اردو کو سرکاری زبان کادرجہ دینے اور علاقائی زبانوں کی ترویج سے متعلق مقدمہ میں وفاقی سیکرٹری اطلاعات ونشریات نے حکومت کی جانب سے رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ صدر مملکت، وزیراعظم، وفاقی وزراء اورتمام حکومتی وسرکاری عہدیداران اندرون وبیرون ملک تقاریب میں اردو زبان میں تقاریر کیا کریں گے۔ اس حوالہ سے وزیراعظم محمد نواز شریف نے انتظامی حکم نامہ جاری کردیا ہے۔ جس کے مطابق وفاقی حکومت کے تمام ادارے اپنی ویب سائٹس تین ماہ میں اردو میں منتقل کردیں گے۔ اس کے ساتھ ہی تمام سرکاری ونیم سرکاری ادارے تین ماہ کے اندر اندر اپنی پالیسیوں اورقوانین کااردوترجمعہ شائع کردیں گے۔جسٹس جوادایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس جوادایس خواجہ نے جائزہ لینے کے بعدرپورٹ کوتسلی بخش قراردیا۔
کہا کہ بلوچستان حکومت نے اپنے صوبہ میںبلوچی اور دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان بھی رائج کردی ہے۔ لیکن پنجاب حکومت نے پنجابی زبان کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔ پنجابی زبان کو لاوارث نہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ وفاقی حکومت کی رپورٹ کے مطابق فوری اور قلیل المدتی اقدامات کے طور پر تمام سرکاری ونیم سرکاری ادارے تین ماہ کے اندر اندر اپنی پالیسیوں اور قوانین کا اردو ترجمعہ شائع کر دیں گے۔ مختلف شعبوں کے حوالے سے ہر طرح کے فارم انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی شائع کیے جائیں گے۔ اور عدالتوں، تھانوں، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور بینکوں سمیت عوامی اہمیت کی حامل تما م جگہوں میں راہنمائی کے لیے نصب بورڈ انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی لکھے جائیں گے۔ پاسپورٹ آفس، انکم ٹیکس، اے جی پی آر، آدیٹر جنرل آف پاکستان، واپڈا، سوئی گیس، الیکشن کمیشن، ڈرائیونگ لائسنسنگ اتھارٹی کے فارم اور یوٹیلٹی بلوں سمیت اس نوع کی تمام تر دستاویزات کی تین ماہ کے اندر اندر اردو میں فراہمی شروع کی جائے گی۔ پاسپورٹ کے مندرجات بھی انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں شائع کیے جائیں گے۔ سرکاری تقریبات یا استقبالیہ جیسی تقاریب مرحلہ وار اردو میں منعقد ہوں گی۔
بھلا ہو عدالت عظمیٰ کا کہ اس نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کے مقدمہ میں وفاقی حکومت کے تمام اداروں کو اپنی پالیسیاں اور قوانین اردوزبان میں شائع اورآویزان کرنے کا حکم دیا ہے۔اطمینان بخش بات یہ بھی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے انتظامی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ تمام وفاقی ادارے اپنی دستاویزات، پالیسیوں اورقوانین کا تین ماہ کے اندر اندر اردو زبان میں ترجمعہ شائع کریں۔ وزیراعظم کے اس انتظامی حکم نامہ پر بروقت عمل ہوجائے توتین ماہ کے بعد سب کچھ تو نہیں تاہم بہت کچھ انگریزی سے اردو میں منتقل ہوچکا ہوگا۔ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ اس کے ساتھ ہم نے بحیثیت قوم جو سلوک روا رکھا ہے۔ اس کو کون نہیں جانتا۔ صرف اردوہی نہیں جس لفظ، کام، پالیسی یاشعبہ کے ساتھ قومی کاسابقہ لگ جائے لگتا ہے ہمیں وہ لفظ،کام، وہ پالیسی، وہ شعبہ اچھا نہیں لگتا۔ ہم نے صرف اردو کو ہی قومی زبان کادرجہ دے کراسے لاوارث نہیں کر دیا بلکہ اور بھی بہت کچھ ایسا ہے جس کو ہم نے قومی کے منصب پر فائز کر کے لاوارث کر دیا ہے۔
Salwar Kameez
ویسے تو ہمارا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہم نے کس کس چیز کو کس کس حالت میں قومی کا درجہ دے کراس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہواہے۔ تاہم اگر کوئی بھول بھی گیا ہوکہ کیا کیا قومی کے منصب پر فائز ہو کر فریاد کناں ہے توہم انہیں یاد دہانی کرادیتے ہیں۔ تو آئیے پڑھیے اور اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے اردو ہماری قومی زبان ہے، شلوار قمیض ہماراقومی لباس ہے، ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے، چنبیلی ہمار اقومی پھول ہے۔ آئیے باری باری سب کاجائزہ لیتے ہیں کہ ہم نے کس کس کوقومی کے منصب پرفائز کرکے ا س کے ساتھ کیا سلوک روارکھا ہواہے۔ اردوہ ماری قومی زبان ہے تاہم ہم نے ابھی تک اس کوسرکاری زبان کادرجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اخباری رپورٹس کے مطابق وزیراعظم کی طرف سے اس حوالہ سے جوانتظامی حکم نامہ جاری کیا گیاہے اس میں تمام وفاقی اداروںکواپنی دستاویزات،پالیسیوں اور قوانین کااردو میں ترجمعہ شائع کرنے کا تو حکم دیا گیا ہے تاہم اس حکم نامہ میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ بھی دینے کاحکم بھی شامل ہے یا نہیں اس بارے کچھ نہیں لکھا گیا ہے۔ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا حکم اس حکم نامہ میں شامل ہوتا تو اخباری رپورٹس میں ضرور لکھا جاتا۔
اردو ہماری قومی زبان ہے تاہم ہم انگریزی میں بات کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں انگریزی کو اردو پر ترجیح دیتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں جتنی توجہ انگریزی زبان پردی جاتی ہے اتنی توجہ اردو اور عربی زبان پربھی دی جاتی توفیل ہونے کا تناسب نہ ہونے کا برابر رہ جاتا۔ تعلیمی اداروں میں انگریزی کی لازمی حیثیت ختم کرکے اختیاری کردی جائے کہ جس کاجی چاہے انگریزی پڑھے جس کاجی نہ چاہے وہ انگریزی نہ پڑھے تو تعلیمی اداروں میں طلباء فیل ہی نہیں ہوں گے۔ طلباء اگر سکول کالج میں صرف کیے گئے وقت کے بعد روزانہ دن رات میں تین گھنٹے ہی پڑھائی پرصرف کرتے ہیں توان تین گھنٹوں میں دوگھنٹے بیس منٹ وہ صرف انگریزی کو لکھنے اور یاد کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ یوں وہ پڑھائی پرصرف کیے گئے ایک سواسی منٹس میں سے ایک سوچالیس منٹس کو صرف انگریزی کو لکھنے اوریادکرنے پرصرف کردیتے ہیں جبکہ وہ صرف چالیس منٹس وہ اردو، اسلامیات،ریاضی سمیت دیگر مضامین پرصرف کرتے ہیں۔ ویسے تواردوہماری قومی زبان ہے تاہم ہمارے حکمران،سیاستدان، صدر، وزیر اعظم، وفاقی وزراء اور تمام حکومتی وسرکاری عہدیداران اندرون وبیرون ملک تقاریرانگریزی زبان میں کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں جس میں دنیا کی تمام اہم زبانوں میں کی گئی تقاریر کا تمام دیگر زبانوں میں براہ راست تر جمعہ کرنے کی سہولت بھی موجود ہے۔
وہاں پر شرکت کرنے والے تمام ممالک سربراہان اپنا اپنا خطاب اپنی اپنی قومی زبان میں کرتے ہیں جبکہ پاکستان سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والے قومی سربراہان اپنی قومی زبان اردو میں نہیں انگریزی میں تقریر کرتے ہیں۔ہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کو لے کر بیٹھ گئے۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ادھر پڑھیئے اور سردھنئے کہ پاکستان میں ایسے سربراہان حکومت بھی ہو گزرے ہیں جوقوم سے خطاب بھی اردومیں نہیں انگریزی میں کرتے رہے ہیں۔اب وزیراعظم نے انتظامی حکم نامہ میں صدر مملکت، وزیراعظم، وفاقی وزراء اورتمام حکومتی وسرکاری عہدیداران کے لیے لازمی قرار دیاہے کہ وہ اندرون وبیرون ملک تقاریر اردو میں کیا کریں گے ۔اس حکم نامہ پر کتنا عمل ہوتا ہے یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آجائے گا۔اقوام متحدہ کاسالانہ اجلاس بھی قریب ہے دیکھتے ہیں اورانتظارکرتے ہیں کہ خودنوازشریف اس اجلاس سے اردو میں خطاب کرتے ہیں یاانگریزی میں۔ وزیراعظم کی طرف سے جاری کیے گئے حکم نامہ میں تمام وفاقی اداروںکی دستاویزات، پالیسیوں اور قوانین کابھی اردو زبان میں ترجمعہ کرنے اورشائع کرنے کاحکم دیا گیا ہے۔
Inglish
اس سے پہلے واپڈا، ڈومی سائل، پاسپورٹ اور دیگر فارم انگریزی زبان میں دستیاب ہیں۔ ہم نے واپڈااور ڈومی سائل کے فارموں اورفائلزکودیکھا ہے جوکہ انگریزی زبان میں ہیں۔ یہ تمام فارمز اور ان پر لکھی گئی شرائط وضوابط انگریزی زبان میں ہونے کے ساتھ ساتھ اتنی باریک لکھی ہوئی ہیں کہ انہیں صرف دوربین سے ہی پڑھا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی ہمت کرکے پڑھ بھی لے تو اکثر کویہ سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ یہ کیا لکھاہواہے۔ ایک واپڈا ملازم نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عوام الناس اگر بجلی کا میٹر لگوانے کی فائل اور فارم غور کر کے پڑھ لیں کہ ان فارموں میں کیا کچھ لکھا ہوا ہے تو کوئی بھی بجلی کا میٹرنہیں لگوائے گا۔ اس نے صرف اتنا بتایا کہ عوام بجلی کا میٹر لگوانے کے لیے ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں اس کے باوجودبجلی کامیٹرصارف کی نہیں واپڈاکی ملکیت میں رہتا ہے۔ واپڈا فائل اور ڈومی سائل فائل کابیان حلفی بھی انگریزی میں لکھا ہوا ہے۔شاید واپڈااورڈومی سائل فائلزمکمل کرنے والے وثیقہ نویس وغیرہ بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ ان میں کیالکھا ہواہے۔ وہ صرف خالی خانوں کے بارے میں ہی جانتے ہوں گے کہ کس خانے میں کیالکھنا ہے۔ نام ولدیت کہاں لکھنا ہے اورپتہ وغیرہ کہاں لکھنا ہے۔
شلوار قمیض ہمارا قومی لباس ہے ہم تنگ سے تنگ پینٹ شرٹ پہننے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں ، کمپنیوں اور دیگراداروں کی یونیفار مزپینٹ شرٹس میں ہیں۔ سب کے رنگ توالگ الگ ہیں تاہم سب اپنے طلباء اورملازمین کوپینٹ شرٹس ہی پہناتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں بچوں کو شلوار قمیض کی بجائے پینٹ شرٹس پہننے کی ترغیب دلائی جاتی ہے۔قومی زبان ولباس کولاوارث کرنے میں نجی تعلیمی اداروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے ہی سب سے پہلے پینٹ شرٹس کو یونیفارمز کا درجہ دے کربچہ بچہ کو پینٹ شرٹ پہنادی ہے اور انگریزی کو ترجیح دے کر شلوار قمیض کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی لاوارث کردیا ہے۔ اب تویہ حالت ہوگئی ہے کہ پینٹ شرٹ پہننے والے کوپڑھالکھا، سلجھا ہوا اور سمجھدارسمجھاجاتا ہے جبکہ شلوارقمیض پہننے والے کوسادہ لوح،کم عقل اورپرانے خیالات کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ شلوارقمیض میں انسان پینٹ شرٹس کی نسبت زیادہ باوقارلگتا ہے۔ہمارا قومی کھیل ہاکی ہے۔ اس کے ساتھ بھی ہم نے جوسلوک روارکھا ہواہے۔ یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے تاہم کرکٹ کھیلنے میں فخرمحسوس کرتے ہیں۔کرکٹ جووقت، پیسہ اور صلاحیتیں برباد کرنے کا تیربہدف نسخہ ہے۔
Hockey
قومی کھیل ہاکی تو شایدہی کہیں کھیلی جاتی ہو جبکہ کرکٹ گلی گلی کھیلی جارہی ہے۔ کرکٹ پر جتنی توجہ دی جاتی ہے ہاکی پراس کاپانچ فیصد بھی توجہ نہیں دی جاتی۔ ہاکی کی حالت تویہ رہ گئی ہے کہ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ ہاکی چیمپئن شپ میں پاکستان کی ہاکی ٹیم کوشامل ہی نہیں کیا گیا۔چنبیلی ہمارا قومی پھول ہے۔ یہ پھول بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ اب توآپ مان گئے ہوں گے کہ جس چیز کے ساتھ قومی کاسابقہ لگ جائے وہ ہمیں اچھی نہیں لگتی۔زبان کوئی بھی ہواس کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا تاہم اپنی قومی زبان کوچھوڑکرانگریزی پرتوجہ دینابھی مناسب نہیں ۔جب سے انگریزی پہلی جماعت میں گھس آئی ہے تب سے اردواوربھی زیادہ لاوارث ہوگئی ہے۔اب بچے انگریزی میں بات تو سمجھتے ہیں اردو میں نہیں۔ کہتے ہیں ہمیں سمجھ نہیں آتی انگلش میں بتائو۔وزیراعظم نواز شریف نے انتظامی حکم نامہ میں تمام وفاقی اداروں کی دستاویزات، پالیسیوں اور قوانین کااردومیں ترجمعہ شائع کرنے کا حکم جاری کرکے اردوکومزیدلاوارث ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ عدالت کی طرف سے قانون کی کتابوں کااردو میں ترجمعہ کرنے کاحکم پہلے ہی سنایا جاچکا ہے۔ توقع ہے کہ مستقبل قریب میں قانون کی کتابیں بھی اردومیں دستیاب ہوں گی۔ تعلیمی اداروںمیں ایسا ماحول فراہم کیاجاناچاہیے کہ بچے اردو بولنے میں فخر محسوس کریں۔
ہم اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کے مقدمہ کی سماعت کرنے والے معززبنچ اوروزیراعظم نوازشریف سے استدعا کرتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے قومی زبان کولاوارث ہونے سے بچانے کے اقدامات کاآغاز کر دیا ہے اسی طرح قومی لباس، قومی کھیل اورقومی پھول کی طرف بھی توجہ دیں۔ان کوبھی مزیدلاوارث ہونے سے بچالیں۔قومی زبان کے ساتھ ساتھ قومی لباس، قومی کھیل کوبھی فروغ دیاجائے۔تمام تعلیمی اداروں اور کمپنیوں وغیرہ کو حکم دیا جائے کہ وہ پینٹ شرٹ ختم کرکے شلوارقمیض میں اپنے اپنے پسندکے رنگوںمیں اپنی اپنی وردی کاانتخاب کریں۔ایسا ماحول فراہم کیاجائے کہ پڑھا لکھا جو ان شلوار قمیض پہننے پر فخر محسوس کرے۔ اسے کسی بھی کمپنی یا دفتر میں شلوار قمیض پہن کر شرمندگی محسوس نہ کرنی پڑے۔ صدر مملکت، وزیر اعظم، وفاقی وزرائ، وزراء اعلیٰ، صوبائی وزراء اور حکومتی افسران، عہدیداران بھی شلوارقمیض پہناکریں پینٹ شرٹس پہننا چھوڑ دیں۔ قومی زبان کی طرح قومی لباس، قومی کھیل اورقومی پھول کوبھی سرکاری لباس، سرکاری کھیل اور سرکاری پھول کادرجہ دیاجائے ۔ ان کو لاوارث نہ رہنے دیاجائے ۔ ان کی فریاد کو سنا بھی جائے اور انہیں بچایا بھی جائے۔