تحریر : ایم پی خان قومی زبان قوموں کی پہچان ہوتی ہے، انکی عزت، فخراور ترقی کا سبب ہوتا ہے۔ہم پاکستانیوں کاالمیہ ہے کہ ہم اپنی قومی زبان سے محبت نہیں کر تے اوراسے وہ مقام دینے میں تامل سے کام لیتے ہیں، جو دنیا کی دیگراقوام نے اپنی قومی زبان کو دیاہے اورجن کاشمارآج دنیاکی ترقی یافتہ اقوام میں ہوتاہے۔بحیثیت قومی زبان اردوکی اہمیت سے کوئی انکارنہیں کرسکتاکیونکہ یہی زبان پاکستان کے چاروں صوبوں کے درمیان رابطے کاذریعہ ہے اورپاکستان کے چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان میں بولی اورسمجھی جاتی ہے۔ لہذا اردوزبان صحیح طورپڑھنااورلکھنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
ابتداً بچے کو جب سکول میں داخل کراتے ہیں توسب سے پہلے پڑھنے کاعمل شروع ہوتاہے اوراسکے بعدلکھنے کاعمل ہوتا ہے اوریوں پڑھنے لکھنے سے تعلیم کی ابتداہوتی ہے۔بچے کو پڑھنے اورلکھنے کے لئے ضرور کسی نہ کسی زبان کے حروف، الفاظ اورجملوں کی مشق کرائی جاتی ہے اوریوں انسان پڑھالکھاہوتاچلاجاتاہے اوریہی انسان کی تعلیم کی کسوٹی ہے۔کیونکہ انسان یاتوان پڑھ ہوتاہے اوریاپڑھالکھاہوتاہے۔بچے کی ذہانت اورقابلیت کااندازہ اسکے پڑھنے اورلکھنے سے لگایاجاتاہے۔اس لئے بنیادی اورضروری بات یہ ہے کہ اچھی طرح پڑھناسیکھ لیاجائے،کیونکہ اچھی طرح پڑھنے سے انسان اچھی طرح بولنے کاقابل ہوتاہے۔
اسکے بعداچھی طرح لکھنے کاعمل ہے،کیونکہ درست لکھنے سے اورخوبصورت لکھنے سے تعلیم کے معیارکاپتہ چلتاہے۔ہماری تعلیم کی ابتداء اردوزبان سے ہوتی ہے لیکن اردوکے ساتھ ہمارا طرزعمل انتہائی افسوس ناک ہے۔والدین شروع سے بچوں کاذہن اسطرح بناتے ہیں کہ اس نے بڑاہوکریاتوانجینئربنناہے ،یاڈاکٹریاکسی ادارے میں افسربنناہے۔لہذا بچے شروع ہی سے سائنس مضامین کوخوب محنت کرکے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسکے لئے دوتین پڑائیویٹ ٹیوشن بھی پڑھتے ہیں اوریوں ڈاکٹریاانجینئربننے کے لئے ایڑی چوٹی کازورلگاتے ہیں، جہاں وہ ناکام ہوجاتے ہیں ، توپھرصاحب حیثیت لوگ اپنے بچوں کو سیلف فنانس کے تحت ملک کے اندریابیرون ملک کالجوں اوریونیورسٹیوں میں داخلہ دلواتے ہیں۔
Students
انکے علاوہ اکثریہاں کالج اوریونیورسٹیوں میں مختلف ٹیکنکل اورسوشل سائنسزوغیرہ میں داخلہ لیتے ہیں،جبکہ ادبی مضامین صرف سکوربڑھانے کی حد تک پڑھتے ہیں۔ایسے حالات میں قومی زبان کے ساتھ بالکل سوتیلی ماں جیساسلوک کیاجاتاہے اورصرف وہی طلبہ وطالبات جو کسی مجبوری کی وجہ سے دیگرکسی فیلڈمیں چلے جانے سے رہ جاتے ہیں۔ وہ اردوکوبطورمضمون اپناتے ہیں اوربہت کم طلبہ وطالبات اپنے شوق سے اردوادب پڑھتے ہیں اورا س میں تحقیق وجستجوکرتے ہیں۔آج تک اردونہ توہماراذریعہ تعلیم بنی،نہ سرکاری دفاتراورعدالتوں میں رائج ہوسکی ،نہ اس زبان کے بولنے میں ہم نے عافیت سمجھی اور نہ اسکوسمجھنے کی حتیٰ الوسع کوشش کی۔اس سلسلے میں اردوکے ساتھ سب سے بڑی بددیانتی تعلیمی اداروں کے اساتذہ نے کی ہے۔ جنہوں نے نہ توخود اردوکوسمجھنے کاحق اداکیاہے اورنہ اپنے شاگردوں کو سکھانے کی کوشش کی ہے۔
بلکہ مجھے یادہے، ہمارے اکثراساتذہ ہمیں کہتے تھے کہ تلفظ اوراملادرست کرنے اورگرائمرکے خیال رکھنے میں وقت ضائع نہ کرے، بلکہ کنسپٹ (سوچ، سمجھ)کلیئرہوناچاہئے۔یعنی انکے محدود ذہن میں صرف مفہوم سمجھ لیناعلم ہے اور زبان کی غلطی کوئی غلطی نہیں۔میں نے اکثرتعلیمی اداروں میں دیکھاہے کہ اردوکے معاملے میں ایسی فاش غلطیاں کرتے ہیں، جس سے انکی نااہلی صاف ظاہرہوتی ہے اورجب کسی کو اصلاح کی خاطرکچھ مشورہ دے توبات ٹال دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ مطلب سمجھ میں آجائے تو یہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں کوئی خاص مسئلہ نہیں۔
مزیدبراں یہ ادارے اردوبولنے کے معاملے میں بھی بالکل بے پروائی برتتے ہیں۔ہماراذریعہ تعلیم انگریزی زبان ہے۔ لہٰذا سکولوں کے اندر معمول کی باتوں کو بھی انگریزی میں بولنے کی ناکام کوشش ہوتی ہے جبکہ اردوزبان کو درست طریقے سے بولنے کووہ اہمیت نہیں دیتے ، جس کی اسے ضرورت ہے۔ اردوبولنے کے معاملے میں پنجاب والوں کو توکوئی خاص مسئلہ نہیں ہوتاکیونکہ پنجابی زبان اوراردوکے آپس میں کافی پرانے لسانی رشتے موجودہیں۔جبکہ سندھ کے اکثرشہروں میں بالعموم اورکراچی میں بالخصوص اردوزبان بولی اورسمجھی جاتی ہے۔
Balochistan School
بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے وہ علاقے جہاں پشتوزبان بولی جاتی ہے، وہاں کے لوگوں کو اردوزبان بولنے میں کافی دقت ہوتی ہے۔اسکی بنیادی وجہ پشتو اور اردو زبان کی ساخت اورلہجہ ہے جوایک وسرے سے یکسرمختلف ہے۔لہذا پشتوزبان بولنے والے علاقوں کے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کرام پرزیادہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ اردو زبان سیکھنے میں کافی محنت کریں اوراپنے سکول اور کالجوں میں اسے ذریعہ گفتگو بنائیں ۔ اسی زبان میں خط وکتابت کریں۔ تلفظ اوراملاء کی غلطیوں کاخاص خیال رکھیں اوربنیادی قواعد سیکھنے کی خوب کوشش کریں۔مزیدبراں اچھے اچھے تعلیم یافتہ افرادجومختلف رسالوں اوراخبارات میں مضامین اوراداریے لکھتے ہیں، وہ بھی اکثرصحتِ املاء کاخیال نہیں رکھتے اور الفاظ کی درستی کے لئے لغت تک دیکھنے کی زحمت گوارانہیں کرتے۔
اسکے علاوہ مختلف دفاتر اور سرکاری محکموں میں خوب تعلیم یافتہ افراد لکھنے پڑھنے میں ایسی بے قاعدگیوں کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں ، جس سے انکی نالائقی اورنااہلی کاخوب اندازہ ہوتاہے، لیکن وہ اپنی کم علمی اورکم دانست کاخوب سراٹھاکر یہی جوازپیش کرتے ہیں کہ اردومیں غلطی کرناکوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔حالانکہ انسان کی شخصیت کااندازہ اسکے بولنے سے اوراسکی قابلیت کااندازہ اسکے پڑھنے لکھنے سے لگایاجاتاہے۔
اس سلسلے میں حکومت اورقانون نافذ کرنیوالے اداروں کابھی اہم کردارہے کہ قومی زبان کے حوالے سے تعلیمی اداروں کی کارکردگی کی کڑی نگرانی کرے اوردوران ڈیوٹی اساتذہ کرام اورطلبہ وطالبات کے لئے اردوزبان میں گفتگولازمی قراردے تاکہ قومی زبان کی اہمیت کااحساس پیدا ہو،اس پرخوب عبورحاصل ہو اور پوری قوم اپنی قومی زبان پر فخر کر سکے۔