ہماری قومی زبان

Urdu

Urdu

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
ہم نے اپنے 17 جولائی کے کالم میںلکھا ” بالآخر محترم جسٹس جواد ایس خواجہ کا ”کھڑاک” کام دکھاہی گیااور حکومتی وکیل نے سپریم کورٹ میںوزیرِاعظم صاحب کا 6 جولائی کوجاری کردہ حکم نامہ جمع کروادیا جس کے تحت صدر ،وزیرِاعظم ،وزراء اورسرکاری نمائندگان اندرون اوربیرونِ ملک اُردومیں خطاب کیاکریں گے ، 90 دنوںمیں تمام سرکاری ونیم سرکاری ادارے اپنی پالیسیوںاور قوانین کااُردوترجمہ کریںگے ،عوامی رہنمائی کے سائن بورڈاُردو میںہوں گے اورتمام دفتری کارروائی اُردومیں ہی ہواکرے گی ”۔ہماری اطلاع کے مطابق تقریباََ 2 ماہ گزرنے کے باوجود ہماری ”سوٹَڈ بُوٹڈ” بیوروکریسی نے تاحال اِس سلسلے میں”کَکھ” بھی نہیںکیا اورکہا جاسکتا ہے کہ ”وہی ہے چال بے ڈھنگی ،جو پہلے تھی سو اب بھی ہے”۔

چیف جسٹس آف پاکستان محترم جوادایس خواجہ چونکہ حکمرانوںکے مزاج آشنااور بیوروکریسی کی ”حرکتوں” سے بخوبی آگاہ ہیںاِس لیے اُنہوںنے اپنی مدت ملازمت ختم ہونے سے پہلے ہی اپنے حکم نامے میںحکمرانوںکو اُن کاعدالتِ عظمیٰ سے کیاگیا وعدہ ایک فیصلے کی صورت میںیاد دلاکر نیا ”کھڑاک” کردیا۔ اب یاتوعدالتِ عظمیٰ کی مقررکردہ مدت میںاردو کوقومی وسرکاری زبان کادرجہ مل جائے گا یاپھر توہینِ عدالت۔ ویسے حکمرانوںکو یادرکھنا ہوگا کہ کبھی کبھی توہینِ عدالت کاثمر مسندِ اقتدارچھِن جانے کی صورت میںبھی ملتاہے جیساکہ ہمارے ”گدی نشین”کومِلا اوراب وہ چراغِ رُخِ زیبالے کربیتے دنوںکو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔

ہمیںچونکہ حکمرانوںسے ہمدردی ہے اورہم یہ بھی سمجھتے ہیںکہ موجودہ دَورمیں اُن سے بہتر کوئی متبادل بھی نہیںاِس لیے بہتر یہی ہوگا کہ کوئی ”ہینکی پھینکی” کیے بغیرسپریم کورٹ کے فیصلے پراُس کی اصل روح کے مطابق عمل درآمدکر دیںکیونکہ اسی میںاُن کابھلا ہے۔ویسے ہمیںشک ہے کہ مقررہ مدت کے بعد بھی حکمران لیت ولعل سے کام لیتے ہی نظرآئیںگے۔ دراصل ہمارے حکمرانوں کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی بیوروکریسی ہی ہے جس کے سامنے وہ خودبھی بے بس ہیں۔

Book

Book

ہمارے پاس آئین نامی ایک ایسی کتاب بھی ہے جسے ہم بہت معتبر، متبرک اورمقدس جانتے ہیںلیکن اِس کے کسی بھی آرٹیکل پرعمل درآمد سے ہمیشہ گریزپا ، البتہ جہاںہمارے ذاتی مفادات پرضرب پڑتی ہووہاں ہم آئین آئین چلانے لگتے ہیں۔ اسی آئین کے آرٹیکل 251 کے تحت 1988ء تک اُردوکو سرکاری ودفتری زبان کے طورپر رائج ہوجانا چاہیے تھالیکن 42 سال گزرنے کے باوجودیہ آرٹیکل ہمارے ہرحکمران کی نظروںسے اوجھل ہی رہا۔ اب سپریم کورٹ نے یہ حکم نامہ صادرفرمایا ہے کہ آرٹیکل 251 فوری طورپر نافذالعمل ہوگا۔ سوال مگریہ ہے کہ اِس کانفاذ توبیوروکریسی نے کرناہے اوربیوروکریسی کے تواپنے مُنہ انگریزی بول بول کے ٹیڑھے ہوچکے ہیںوہ بھلااُردو کانفاذ کیسے ہونے دیںگے۔

چیف جسٹس صاحب بھلے فیصلہ اُردومیں سناتے رہیںلیکن ہماری بیوروکریسی پر ”کَکھ” اثرنہیں ہونے والاکیونکہ جن کے اپنے بچے آکسفورڈجیسے اداروںمیں زیرِتعلیم ہوںوہ بھلا”ٹاٹ نشینوں” کی زبان کوکیسے نافذہونے دیںگے ۔قائدِاعظم اَز راہِ تفنن کہا کرتے تھے ”میری اُردوتو تانگے والے کی اُردوہے” لیکن اُنہوںنے تشکیلِ پاکستان کے ساتھ ہی قومی شناخت کے لیے اُردوکا بطورقومی زبان انتخاب کیالیکن 68سال گزرنے کے باوجودہمارے ”بابوؤں” نے انگریزی زبان ،لباس اورتہذیب ومعاشرت کوہی اپنااثاثہ جانا۔ اب بھی نفاذِاُردوکی راہ میںسب سے بڑی رکاوٹ یہی ہوںگے۔

عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میںلکھا ”حکومت کی جانب سے اِس عدالت کے روبرو عہدکرتے ہوئے جولائی 2015ء کواِس حوالے سے عمل درآمد کی جومیعاد مقررکی گئی ہے اُس کی ہرحال میںپابندی کی جائے ”۔ہمارے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب بھی ”بھولے بادشاہ” ہی نکلے۔ جس عہدکی پابندی کاوہ حکم دے رہے ہیںاُس کی مدت ختم ہونے میںبس مہینہ ،سوامہینہ ہی باقی ہے ۔ آج تک تواِس پرکچھ کام ہوا نہیںتوپھر کیااگلے تیس ،چالیس دنوںمیں ہوجائے گا؟۔ اطلاعاََعرض ہے ”مقتدرہ قومی زبان” تو 1981ء میںہی اپنی سفارشات پیش کرچکی جن پر34 سال گزرنے کے باوجود رائی کے دانے کے برابر بھی عمل نہیںہواتوکیا اِس قلیل ترین مدت میںہو جائے گا؟۔

Bureaucracy

Bureaucracy

اگربات عدلیہ کے ”رعب شُعب” کی ہے تو مشتری ہوشیارباش ،ہم توآئین کوپرکاہ برابرحیثیت نہیںدیتے پھر بھلاآئین کے ماتحت عدلیہ کس کھیت کی ”مولی گاجر” ہے۔ یہ بجاکہ جولائی 2015ء میںہمارے حکمرانوںنے عدالتِ عظمیٰ کے روبرویہ عہدکیا کہ3 ماہ کے اندروہ سب کچھ کردیا جائے گاجو 8 اگست کے فیصلے میںلکھاگیا لیکن مکررعرض ہے کہ جس عہدکی پاسداری کاحکم ہمارے بھولے بادشاہ (جواد ایس خواجہ) دے رہے ہیںاُس کا مسلمہ اصول ہمارے ”بڑے”طے کرچکے۔ جب پوری قوم اِس اصول کوجانتی ہے توپھر اُردوکو بطور دفتری زبان رائج کرنے کاحکم دینے والاعدالتی بنچ بھی جانتاہی ہوگاکہ ”وعدے قُرآن وحدیث نہیںہوتے”۔ جسٹس جوادایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمدخاں اورجسٹس قاضی فائزعیسیٰ پرمشتمل تین رکنی بنچ نے 9 نکات پرمشتمل جوحکم نامہ جاری فرمایاہے اُن پرعمل درآمد کی کوئی صورت اِس لیے بھی نظرنہیں آتی کہ یہ سب کچھ طبقۂ اشرافیہ کوپسند ہے نہ بیوروکریسی کو۔

عدلیہ نے توکہہ دیاکہ ”جب ریاست اِس بات پر مصر ہوجائے کہ وہ زبانیں جوپاکستانی شہریوںکی اکثریت بولتی ہے ،اِس قابل نہیںکہ اِن میںریاستی کام انجام پاسکے توپھر ریاست اِن شہریوںکوحقیقی معنوںمیں اُن کے انسانی وقارسے محروم کررہی ہے۔اسی طرح جب ریاست پاکستانی شہریوںکو معاشی اورسیاسی مواقع تک رسائی سے محض اِس بناپر محروم کردے کہ وہ اپنی قومی یاصوبائی زبانوںپر توعبور رکھتے ہیںمگر انگریزی زبان نہیںجانتے تووہ اِن کوقانون کی نظرمیں برابری کے حق سے محروم کردیتی ہے۔

لہٰذاآرٹیکل 251 کاعدم نفاذپاکستانی شہریوںکی اکثریت کو، جوایک غیرملکی زبان سے ناواقف ہے ،بنیادی حقوق سے محروم کرنے کاسبب بن رہاہے”۔ دست بستہ عرض ہے کہ راندۂ درگاہ اورمجبوروں ،مقہوروںکے صرف فرائض ہی فرائض ہوتے ہیں ،حقوق نہیں۔جن حقوق کی بجاآوری کاحکم دیاجا رہاہے وہ قوم کوپہلے کبھی ملے، نہ ہی آئندہ ملنے کی توقع۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر