اردو زبان کی اہمیت کیا ہے اور اس زبان کا قومی زبان کے طور پر نفاذ کیوں ضروری ہے ؟ اس سوال کا جواب ہمیں بانی پاکستانقائدِ اعم محمد علی جناح ہی کی ایک تقریر کے اقتباس سے ملتا ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ”کوئی بھی قوم ایک قومی زبان کے بغیر ملکی سا لمیت اور فکری یک جہتی تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی ” بِلا شک و شبہ زبان کسی قوم کے افتخار کا نشان ہو تی ہے۔زبان صرف اظہار کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ قوم کی تہذیبی شناخت اور اس کے تشخص کی ترجمان ہو تی ہے۔قومی زبان قومی شعور اور فکر و تخیل کی امین ہوتی ہے۔
کوئی قوم اپنے آبائو اجداد کی روشنی طبع سے صرفِ نظرکر کے خود آگاہی کا مرحلہ طے نہیں کر سکتی۔ جس کا واضح ثبوت وطنِ عزیز کی 72سالہ زندگی ہے ۔ہم نے اردو کے بجائے انگریزی کو گود لیا اور ہم آج اس کا انجام دیکھ رہے ہیں کہ پاکستانی قوم ایک ریوڑ بن چکی ہے،ضرب المثل ہے ” کوّا مور چال سیکھنے گیا ،اپنی بھی بھلا بیٹھا ” ہم بحیثیت مجمو عی انگریزی سیکھ سکے نہ اردو ۔ گویا نہ اِدھر کے رہے نہ ادھر کے ” آئینِ پاکستان 1973کے شق نمبر 251کے تحت کو پندرہ سال کے اندر اردو کو ر بطورِ دفتری زبان نا فذ کر دینا چاہئیے تھا مگر افسوس کے تاحال اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ جولائی 2015کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اردو کو سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا گیاْاس وقت کے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اردو رائج کرنے کے بِل پر 6جولائی کے دن دستخط کئے۔مگر افسوس صد افسوس کہ
یہ ساری کاروائی صدا بالصحرا ثابت ہوئی ۔
قومی زبان کیساتھ یہ سلوک محبِ وطن لوگوں کو بہت ناگوار گزرا۔ بوجہ ازیں اب ایک تحریک کی بنیاد رکھ دی گئی ہے جس کا نام ” تحریکِ نفاذ اردو ” رکھ دیا گیا ۔عطاء الرحمٰن چوہان اس تحریک کے مرکزی صدر چن لئے گئے ہیں۔جبکہ خیبر پختونخوا میں عبدالحق صاحب صوبائی صدر اور سید مشتاق حسین بخاری کو ضلعی صدر چن لیا گیا ۔معروف معالج،کالم نگار، شوریٰ ہمدرد کے اسپیکر ڈاکٹر صلاح الدین کو اس تحریک کا سرپرستِ اعلیٰ بنا دیا گیا۔گزشتہ روزپشاور میں صوبائی اور ضلعی کا بینہ کا مشترکہ اجلاس منعقد کیا گیا ۔جس مین آیندہ کیلئے حکمتِ عملی مرتب کی گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ 8اکتوبر 20219سے باقاعدہ دستخطی مہم شروع کی جائے گی ، ممبر سازی کا مرحلہ بھی شروع کیا جائے گا جب کہ اس سے قبل جامعات میں وفد کی شکل میں جا کر ان کے انتظامیہ سے مل کر اس مہم کی کامیابی کے لئے تعاون کرنے کی درخواست کی جائے گی۔کابینہ کے ارکان نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ اردو کے نفاذ سے متعلق قائد اعظم کے فرمان، آئینِ پاکستان اور سپریم کورٹ کے فیصلہ سے روگردانی کی جا رہی ہے ،اردو کے نفاذ کے نفاذ کے لئے جو نظام الاوقات دیا گیا وہ سب طفل تسلیاں ثابت ہوئی ہیں۔تحریک نفاذ اردو کے ارکان نے عہد کیا کہ وہ اردو زبان کو وہ مقام دلانے کی بھر پور کوشش کریں گے جس کی وہ حقدار ہے،جو پاکستان کی بقا اور ترقی کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کا ایلیٹ طبقہ انگریزی زبان کا رسیا ہے کیونکہ ان کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں یا اندرونِ ملک انگلش میڈیم اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں، ان کے مفادات انگریزی زبان سے جڑے ہو ئے ہیں۔ وہ روزمرہ زندگی میں انگریزی وضع قطع کو ترقی کا زینہ سمجھتے ہیں،اسی وجہ سے ملک میں اردو زبان کو رائج کرنے میں وہ روڑے ا ٹکاتے چلے آرہے ہیں۔
بِلا شک و شبہ خود دار اور باوقار قومیں ہمیشہ اپنی تہذیب و ثقافت،اپنی زبان کو سینے سے لگا کر رکھتی ہیں،اس کی قدر کرتی ہیں اور ان پر فخر کرتی ہیں۔دنیا میں جن اقوام نے ترقی کے مدارج تیزی سے طے کئے ہیں سبھی نے ہمیشہ اپنی قومی زبان کو فو قیت دی ہے ۔اس امر سے بھی انکار ممکن نہیں کہ فی زمانہ انگریزی کی اپنی اہمیت ہے لیکن ہماری قومی زبان اردو کی اہمیت ہم پاکستانیوں کے لئے اس سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔یہی وجہ ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح 1948 میں ایک جلسہ عام میں فرمایا تھا ” میں واضح الفاظ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہی ہو گی جو شخص آپ کو اس سلسلے میں غلط راستے پر ڈالنے کی کو شش کرے،وہ پاکستان کا پکا دشمن ہے ، ایک مشترکہ زبان کے بغیر کوئی قوم نہ تو پوری طرح متحد رہ سکتی ہے اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے ” بایں وجہ حکومتِ وقت سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے اور ہر سطح پر اسے رائج کرنے کے لئے فوری اقدامات اٹھائے جو نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کی طرف سفر کرنے کے لئے ایک ایسی زادِ راہ ہے جس کے بغیر قومی ترقی کا خواب شرمندہء تعبیر نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔