تحریر : فرح دیبا ہاشمی دنیا میں رابطے کا سب سے اہم اور بڑا ذریعہ زبان ہے ۔دنیاوی زندگی میں سماجی تعلقات لازمی جزو ہیں ۔تعلقات یا وابستگی زبان کی فہم کے بغیر ممکن ہی نہیں ہیں ۔خالق کائنات جو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اس کے حرف کن کہنے سے تمام کائنات معرض وجود میں آگئی ۔ اس ذات حق نے ازل سے آسمانوں اور عرش پر قدسیوںکو عبادت اور ابلاغ کے لئے ایک زبان تشکیل دی اور پھر اپنے مکان لامکانی میںاسے رائج بھی کیا ۔یہی نہیں بلکہاپنی زبان کو بتدریج ترقی دینے کے لئے اولالبشر کو کو جنت سے نکال کر عرش کی زبان کو فرش تک پہنچایا ۔اللہ تعالی کے ہان تمام انبیاء اور آسمانی مخلوقات تمام تر میں ابلاغ کا ذریعہایک ہی زبان ہے ۔ذات باری تعالی نے اولالبشر سے خاتم النبیین ۖ تک اس زبان کو اتنی ترقی دی کہ ابتدا میں جو زبان محض آسمانوںپر قدسیوں اور انبیاء کے لئے تھی کتاب الھدی میں اسقدر ترقی یافتہ اور مکمل ہوئی کہ ازل کے قصوں سے ابدی سفر تک مکمل راہنما بنی۔
عربی گرامر اور قواعد کے لحاظ سے دنیا کی سب سے فصیح و بلیغ زبان ہے ۔ہر زبان کے بارہ (12)جبکہ عربی کے اٹھارہ (18) صیغے ہیں ۔اگر اس زبان کو عرشیوں کی قومی زبان کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ۔کیونکہ سفر آخرت میں نماز جنازہ سے نکیرین کی گفتگو تک سب اسی زبان میں ہے ۔فقہ کی اکثر کتب میں سوالنامہ نکیرین درج ہوتا ہے ۔خالق ارض و سماء نے جہاں انسان کو دیگر معاملات میں راہنمائی فراہم کی وہاں اپنے ازل سے ابد تک کے راہنما کلام کو مخصوص زبان میں نازل فرما کر ہمیں قومی زبان سے محبت کا درس بھی دیا ہے ۔اب ظاہر ہے اگر ہم کسی کے سامنے قرآن پاک کی تلاوت کریں گے تو وہ بآسانی جان لے گا کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان ایک قوم ہیں اور عربی اس قوم کا تشخص۔اب اگر ہم قومی زبان کی طرف توجہ مبذول کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں ترقی یافتہ قوموں نے سب سے زیادہ کام اپنی زبان کی ترقی کے لئے کیا ہے ۔تاج برتانیہ کی حکومت اتنی ہی وسیع تر ہوتی چلی گئی جتنی انگریزی علوم نے ترقی کی۔
انگریز نے ہر جگہ قبضہ کرنے اور حکومت قائم رکھنے کے لئے وہاں پر اپنا نظام تعلیم رائج کیا اور اپنی زبان کو ہی ذریعہ معاش اور ترقی کا زینہ قرار دیا ۔جس قدر انگریزی زبان کو مقامی لوگوں نے جانا اسی طرح ترقی بھی کی ۔برصغیر میں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان آباد تھیں ۔مولانا الطاف حسین حالی کی کتاب حیات جاوید میں ایک فرانسیسی دانشور گارساں دتاسی کا قول درج ہے کہ ہندو اپنے تعصب اور تنگ نظری کی وجہ سے ہر اس امر میں مزاحم ہوتے ہیں جو انہیں مسلمانوں کے عہد کی یاد دلاتے اور ہندو اردو زبان کو مسلمانوں اور اسلام کی مخصوص زبان سمجھتے تھے ۔برصغیر میں اردوکسی دوسرے ملک سے نہیں آئی تھی بلکہ مغلیہ دور حکومت میں ترکی ،افغانی ،فارسی ،عربی اور ہندی کے باہمی تعامل سے اسی خطے میں تشکیل پائی اور مسلمانوں نے سماجی اورمعاشرتی طور پر اسے ذریعہ اظہار بنایا۔
Urdu Writing
اس وقت ہندوئوں نے بھی اردو کی ترویج اور ترقی کے لئے کام کیا ۔رام بابو سکسینہ نے اردو ادب کی پہلی باقاعدہ تاریخ لکھی۔رتن ناتھ سرشار اورمنشی پریم چند افسانہ نگار گزرے ہیں 1825میں اردو زبان کو برصغیر کی سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تو ہندو مسلم لسانی تعصب کی بنیاد پڑ گئی ۔1867میں بنارس کے مقام پر اردو ہندی تنازع شروع ہوا ۔1868میں لسانی تنازع کی شرح میں سر سید نے یہ الفاظ پہلی بار کہے کہ ہندو اور مسلمان علیحدہ علیحدہ قومیں ہیں ۔پھر سرسید نے اردو کی ابتدائی ترقی اور ترویج کے لئے سائنٹیفک سوسائٹی کے پلیٹ فارم سے اردو کا تحفظ کیا اور مختلف علوم کو اردو میں ترجمہ کیا ۔خطے میں انتہائی بدنظمی کے پیش نظر بنگال کے گورنر لیفٹیننٹ جارج کیمبل نے 1871میں اردو کو نصابی کتب سے خارج کرنے کا حکم دیا ۔اس بناء پر یو۔پی کے گورنر انتھونی میکڈونلڈ نے 1900میں ہندوئوں کے مطالبے پر عدالتوں ،تعلیمی اداروں اور دفاتر میں ہندی کو قومی زبان کا درجہ دے دیا ۔برصغیر کی ہر سیاسی اور سماجی مسلمان تنظیم نے اردو کی ترویج اور ترقی میں اپنی بساط کے مطابق بھرپور کردار ادا کیا۔
بلاشبہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علیحدہ تصور کی بنیاد ہماری قومی زبان اردو ہے ۔حالات حاضرہ پر نظر ڈالیں تو اب بھی ہماری قومی زبان تنازعات اور تعصبات کی زد میں ہے مگر حلات کچھ یوں ہیں کہ ، جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے ہندو اور انگریزوں کی اردو سے نفرت کی وجہ تو اظہر من الشمس ہے مگر پاکستانی قوم کے اردو سے اس روئیے کی وجہ سمجھنے سے قاصر ہوں اور بحثیت پاکستانی اس پر نادم بھی ہوں ۔افسوسناک بات یہ ہے کہ پوری پاکستانی قوم نے قیام پاکستان کے فوری بعد سے اردو سے گریز شروع کر دیا جو اب اردو فراموشی کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ابتدا میں ہم نے غلامی کے اثرات وجہ سے انگریزی اپنائی اور اب فیشن اور ضرورت کی وجہ سے ۔ہمارے معاشرے کی نسل نو کو دینی فقہ اور ثقافتی ادب سے بالکل بھی آگاہی نہیں ہے جبکہ ان پڑھ اور کم پڑھے لکھے بھی کمپیوٹر اور انٹر نیٹ ایپس پر خاطر خواہ دسترس رکھتے ہیں۔
اس میں قصوروار صرف نسل نو نہیں بلکہ وہ بڑے بھی ہیں۔جو ثقافت اور زبان کو بطریق احسن منتقل نہیں کر پائے ۔ہمارا نظام تعلیم آج بھی علوم محمدیہ ۖکی بجائے میکالے کی پالیسی پر قائم ہے جو اردو سے نا انصافی کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔اور پاکستان میں اردو اور اسلامیات کے علاوہ شائید ہی کسی مضمون کی ماسٹر ڈگری اردو میں ہو تقریبا ہے ہی نہیں ۔تعلیم کی ابتدا میں اردو کو ہم نے شامل تو کر لیا مگر تعلیم کی پہلی ڈگری سے ہی اس کو لازمی سے اختیاری کا درجہ دے دیا ۔آخر اردو سے اتنا گریز کیوں ۔۔۔؟میری ایک پروفیسر صاحبہ نے ایک بار نفسیات کے لیکچر کے دوران یہ کہا تھا کہ اردو والے اپنی زبان کی کم مائیگی پر شرمندہ ہیں۔
Pakistan
اس وقت یہ بات مجھے بہت ناگوار گزری تھی مگر اب اس حقیقت کو جان کر افسوس ہوتا ہے کہ ہم نے اردو کو اپنا تو لیا مگر ترقی دینے کی بجائے اسے تنزلی کی طرف موڑ دیا ۔قیام پاکستان سے پہلے اردو میں شاعری ،افسانہ نگاری ،ناول ،داستان ،انشائیے، سفرنامے ،آپ بیتیاں ،مرثیے اوربطور خاص دیگر علوم کے تراجم کے سلسلہ میں جتنا کام ہوا اب نہیں ہو رہا ۔چند اردو پرست اردو کی حالت زار پر مضطرب تو ہیں مگر کسی نے اتنے درد رقم نہیں کئے جو دیوان ہوا کرتے تھے ۔ اب سرکاری سطح پر دیکھیں تو اردو کی حالت اس سے بھی ابتر ہے ۔چھوٹے چھوٹے ممالک کے سربراہان جب بیرون ملک دورہ کرتے ہیں تو بات چیت کے لئے ساتھ ترجمان ضرور رکھتے ہیں اور خود اپنی قومی زبان میں بات کرتے ہیں ۔یہاں تو ایسا لگتا ہے کہ سربراہان مملکت بھی اپنی زبان کی کم مائیگی کا ثبوت پیش کرتے ہیں ۔اور ہر جگہ محض انگریزی پر ہی تکیہ کرتے ہیں۔
الحمدوللہ ہماری مذہبی اورقومی مکمل تہذیب اور ثقافت موجود ہے جو ہر لحاظ سے اس قابل ہے کہ اسے مکمل طور پر اپنایا جائے ۔ہماری قوم نے مذہبی اور معاشرتی بے ادب تہذیب کو اپنا لیاان کی زبان کو اپنانا چلو یہ ضرورت سہی مگر شرمناک بات یہ ہے کہ ہم نے اپنی زبان کو فراموش کر دیا ۔اردو ادباء اور شعراء کے ناموں سے اور لغت کے اکثر الفاظ تک سے ہماری نسل نو واقف ہی نہیں ہے ۔سب سے پہلے تو میری سربراہان مملکت سے گزارش ہے کہبیرون ملک اپنی زبان میں بات کر کے اس سے محبت کا ثبوت دیں اور اس کی ترقی میں تعاون فرمائیں ۔ہماری ملکی دولت اتنی کم تو نہیں کہ ترجمان کے اخراجات برداشت نہ کر سکے ۔مقتدرہ قومی زبان کے چئیرمین سے میری گزارش ہے کہ اب تک اردو زبان کے لئے جو نہیں ہو پایا وہ موجودہ چئیرمین کریں اور قومی زبان کے تحفظ اور ترقی کے لئے اقدامات عمل میں لائیں۔
اگر ہر سطح پر ہم ذہنی طور پر انگریز کے غلام نہ ہوتے تو آج قومی زبان کے سرکاری زبان ہونے پر اردو نا منظور کے نعرے لگانے کی بجائے اسے بخوشی قبول کرتے ۔میری حکام بالا سے گزارش ہے کہ سرکاری زبان اردو کے خواب کو شرمندئہ تعبیر کرنے کے لئے سخت عملی اقدامات کریں کیونکہ ہمارا قومی تشخص ہے اور خدارا اسے مسخ ہونے سے بچائیں۔
Farah Hashmi
تحریر : فرح دیبا ہاشمی Mail : dar-e-nigahsay@gmail.com