کراچی (محمد ارشد قریشی) گذشتہ دنوں کراچی کے نیشنل میوزیم آف پاکستان میں سندھ کے مشہور تاریخی مقام برہمن آباد (منصورہ) کے بارے میں مہران ہسٹاریکل اینڈ کلچرل ویلفئیر سوسائیٹی اور پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ (پی ایف سی سی) کے تعاون سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں مقامی اور اندرون سندھ سے لوگوں نے شرکت کی۔
سیمینار میں گذشتہ دنوں برہمن آباد منصورہ کا دورہ کرنے واے صحافیوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابسطہ لوگوں نے اپنے تاثرات بیان کیئےـ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے صحافی اور برہمن آباد سیمینار کے روح رواں جناب آچر خاصخیلی سمیت برہمن آباد پر تحقیق کرنے والے محقق جناب پروفیسر محمد خان برڑو، ڈاکٹر حلیم شرر، ڈاکٹر الطاف، کالم نگار ماجد صدیقی، پروفیسر ممتاز بھٹو،ڈاکٹر در محمد پٹھان، کراچی یونیورسٹی شعبہ آرکیالوجی کی طالبہ زرمینہ زر اور ماہر آثار قدیمہ اور برہمن آباد پر پی ایچ ڈی کرنے والے پروفیسر حنیف لغاری صاحب نے برہمن آباد کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات پر شدید دکھ کا اظہار کیا کہ برہمن آباد کے تاریخی مقامات جو سینکڑوں کلو میڑ پر محیط تھے حکومتی اداروں کی لاپرواہی کی وجہ سے سمٹ کر چند کلو میٹر ہی رہ گئے ہیں جس میں بدستور باقیات کی چوری اور قبضہ مافیا کی وجہ سے کمی واقع ہو رہی ہے۔
تمام شرکاء سیمینار نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ برہمن آباد پر نئے سرے سے تحقیق کی جائیں اور اس کی اصل اور مصدقہ تاریخ عوام کے سامنے لائی جائے اور برہمن آباد کو قومی ورثہ قرار دیتے ہوئے اس کے محل و قوع کو قبضہ مافیا سے واگزار کرایا جائے اور اس تاریخی ورثے کی مستقل بنیادوں پر حفاظت کا انتظام کیا جائے۔ سیمینار کے اختتام پر مقررین کو یادگاری شیلڈ پیش کی گئیں۔ مقررین کی جانب سے برہمن آباد کے تاریخی مقام کے حوالے سے میڈیا اور حکومتی اداروں کی توجہ مبذول کرانے پر جناب آچر خاصخیلی اور مزمل احمد فیروزی کی کاوشوں کو سراہا گیا۔