جامعہ نعیمیہ میں اہلسنت کی تمام مذہبی وسیاسی ملک گیر تنظیمات کے قائدین کا اجلاس ”بعنوان قومی امن مذاکر ہ بیاد ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی شہید علیہ الرحمہ” ہوا۔ اس مذاکرے میں پیر محمد افضل قادری، حامد سعید کاظمی، حامد رضا قادری، انجینئر ثروت اعجاز قادری، قاری زوار بہادر، پیر محفوظ مشہدی، مفتی اقبال چشتی، پیر خواجہ غلام قطب الدین، علامہ صادق قریشی، پیر اطہر القادری، مولانا قاسم علوی، مفتی محمد حسیب قادری، مفتی ابوبکر اعوان، ڈاکٹر علی اکبر الازہری، مولانا طاہر تبسم، مولانا رضائے مصطفےٰ نقشبندی، مولانا محمد علی نقشبندی، پیر واجد شاہ گیلانی، مولانا مرتضیٰ ہاشمی، شیخ طاہر انجم، پیر منیر احمد یوسفی، مولانا گلزار نعیمی،مولانا شہزاد مجددی، جناب سجاد میر، مولانا اعظم علی نعیمی، جناب بدر ظہور چشتی، محترم اکرم رضوی کے علاوہ ایک سو سے زائد علماء ومشائخ نے شرکت کی مذاکرے کی صدار ت جامعہ نعیمیہ کے ناظم اعلیٰ اور نائب ناظم تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان علامہ راغب حسین نعیمی نے کی۔ اجلاس میں متفقہ طور پر طے پایا کہ کسی بھی ریاست کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کے آئین کا تحفظ اور نفاذ کرے لہٰذا حکومت وقت صرف انہی افراد سے مذاکرات کرے جو آئین پاکستان کو تسلیم کریں۔
آئین کے باغی افراد سے ہرگز مذاکرات نہ کیے جائیں ۔ حکومت اپنی ترجیحات پر کسی قسم کی سودے بازی نہ کرے ۔اس سلسلہ میں حکومت تمام سٹیک ہولڈرز سے تمام معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے تفصیلی مشاورت کرے ۔آئین پاکستان کو تسلیم کرنے والے طالبان سے مذاکرات کے بعد طالبان کے علاوہ دیگر مسالک ، عقائد کے حامل افرد کے جان ومال کے تحفظ کی ضمانت حکومت کو دینا ہو گی ۔ آئین کے مطابق قانون کا نفاذ کیا جائے ۔دہشت گردی اور ہر طرح کی بدامنی کے خاتمہ کیلئے ملک میں فوراً نظام مصطفےٰ کو نافذ کیا جائے ۔ آئین کی پامالی، امن عامہ کے قیام میں ناکامی ، حکومتی رٹ کا قائم نہ ہونا، حکومت، افواج پاکستان اور مختلف متعلقہ ایجنسیوں میں باہمی رابطہ اور ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے ہے ۔ لہٰذاحکومت افواج پاکستان اور متعلقہ ایجنسیاں باہم رابطہ کو مؤثر بنائیں اور مشترکہ حکمت عملی طے کر کے باہمی اتفاق اور تعاون سے اقدامات کریں۔ جب تک قومی سطح پر پیدا ہونے والے ایشوز پر پوری قوم اور قوم کے تمام طبقات یک جان ویک زبان نہ ہوجائیں اس وقت تک اسے حل کرنا خاصہ مشکل بلکہ بعض اوقات ناممکن ہوتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ دہشت گردوں کی روک تھام کیلئے پوری قوم تمام طبقات سٹیک ہولڈرز کوا عتماد میں لے کر متفقہ آواز اور جذبہ پیدا کر کے اس ناسو ر کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کیا جائے ۔ صرف سیاسی جماعتوں کی APCکافی نہ ہے ۔حکومت پاکستان کی طرف سے بلائی گئی APCمیں دہشت گردی کا شکار امن ومحبت کے داعی بڑے سے بڑے طبقہ اہلسنت وجماعت کے کسی نمائندے کو دعوت نہ دینا کئی شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے ۔ اور اس سے کئی سوالات اٹھتے ہیں ۔ جبکہ یہ حکومت کی جانبدارا نہ سوچ اور پالیسی کی عکاسی کرتا ہے ۔ جو کہ قابل مذمت ہے ۔ دہشت گردی کے فروغ کا ایک اہم سبب حکومتی اور ایجنسیوں کے افراد کی نا اہلی اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کی وجہ سے ہے ۔ لہٰذا اس کے مکمل خاتمہ کیلئے تمام اداروں اور ان کے افراد کی کارکردگی بہتر بنانا ضروری ہے اسی طرح مستقل دور رس نتائج کی حامل پالیسی کا ہونا بھی انتہائی لازمی ہے ان کے بغیر مطلوبہ نتائج نہیں حاصل کیے جا سکتے ۔ کسی بھی نیٹ ورک کو چلانے کیلئے دور حاضر میں اس کی فنڈنگ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ طالبان کے مختلف گروہوں کو ملنے والی فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے ۔ جو ممالک ، ادارے اور افراد انہیں مالی معاونت دے رہے ہیں انہیں بے نقاب کیا جائے ۔ اندرونی اور بیرونی فنڈنگ روکنے کیلئے مؤثر قانون سازی کی جائے اور ہر صورت اس پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا جائے ۔ ملک پاکستان کی اکثر جیلیں جرائم پیشہ افراد کیلئے جنت بن چکی ہیں ۔ دہشت گردی اور فرقہ وارانہ کاروائیوں کو جیلوں سے کنٹرول کیا جاتا ہے لہٰذا جیلوں میں موجود تمام بڑے جرائم پیشہ افراد بالخصوص دہشت گردوں کی کڑی نگرانی کی جائے اس سلسلے میں ہونے والی خامیوں کو فورا دور کر کے مؤثر میکنزم تیا ر کیا جائے۔
دہشت گردی کا عفریت پورے ملک کو تباہ کر رہا ہے ۔ ملک کو اس کی تباہی سے بچانے کیلئے دہشت گردی پیدا کرنے والے عوامل ڈرون حملے، فرقہ وارانہ منافرت، تعلیمی پسماندگی اور غربت ہیں۔ حکومت اور تمام ذمہ داران کی یہ آئینی ،اخلاقی وملی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر بھی غور وخوض کر کے اس سلسلہ میں اقدامات کریں ۔ اس وقت ملک کے بڑے شہروں میں بھی دہشت گردی کے مراکز اور دہشت گردوں کی پناہ گاہیں منظر عام پر آرہی ہیں حکومت اور متعلقہ ایجنسیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پورے ملک میں بالخصوص بڑے شہروں میں دہشت گردی کے مراکز دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو تلاش کرے اور ختم کرنے کے اقدامات کرے ۔
حکومت اور مختلف ایجنسیوں میں دہشت گردوں کی حمایت کرنے والے افراد موجود ہیں اسی وجہ سے ان کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں ہو پارہی حکومت اور ایجنسیوں کے سربراہان اپنے اندر موجود ایسی کالی بھیڑوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں تاکہ دہشت گردی کے ناسور سے چھٹکارا ممکن ہو ۔ کیا حکومت افواج پاکستان اور متعلقہ ایجنسیاں یہ ضمانت دیتی ہیں کہ مسلک اور عقیدہ کی بنیا د پر کسی کو قتل نہیں کیا جائے اور نہ ہی اس کے املاک کو لوٹا جائے گا ۔ حالانکہ ماضی قریب میں طالبان کے زیر اثر علاقوں میں ایسے واقعات بڑی تعداد میں ہوئے حتی کہ قبروں سے جسموں کو نکال کر ان کی بے حرمتی کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ۔ محب وطن اور ملک کا سنجیدہ طبقہ یہ سمجھنے سے اب تک قاصر ہے کہ ہماری حکومت بالخصوص پاک فوج اور ایجنسیاں دہشت گردی کے خاتمہ اور دہشت گردوں کو کچلنے میں کس طرح ناکام ہیں جبکہ انہیں ایجنسیوں کی مدد سے ایشیاء کے ایک ملک میں بغاوت کو کچلا گیا ۔ اپنے ملک میں ایسا کرنا کیونکر ممکن نہیں ۔ فرقہ واریت ، دہشت گردی اور طالبنائزیشن نواز اخبارات ،جرائد اور رسائل کے اجراء پر پابندی پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے تاکہ اس سوچ اور فکر کا خاتمہ ہو سکے ۔ تعلیمی اداروں کا بنیادی مقصد فکر اور نظریہ سازی وافراد سازی ہے ۔ جب تعلیمی ادروں میں دہشت گرد عناصر موجود ہوں گے تو دہشت گردی کی فکر پر وان چڑھے گی ۔ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے تاکہ تعلیمی ادارے دہشت گردوں اور ان کے معاونین وسرپرستوں سے پاک ہوں ۔ دہشت گردی پروان چڑھانے والی نرسریوں کاادراک اور خاتمہ بھی لازم ہے ۔ ملک پاکستان میں موجود اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے اسلام اور پاکستان کی عالمی بدنامی اور رسوائی کا سبب ہیں ۔ حکومت اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ آئین پاکستان میں دیئے گئے انکے حقوق کا مکمل تحفظ کیا جائے اور آئینی و ریاستی ذمہ داری پوری کی جائے۔
اجلاس میں درج ذیل تنظیمات اہلسنت نے شرکت کی۔ نعیمین ایسوسی ایشن پاکستان، سنی اتحاد کونسل پاکستان، جمعیت علمائے پاکستان، پاکستان سنی تحریک، انجمن اساتذہ پاکستان، انجمن طلباء پاکستان ، جمعیت علمائے پاکستان سواد اعظم، عالمی تنظیم اہلسنت ، جماعت اہلسنت پاکستان، تحریک منہاج القرآن، ادارہ صراط مستقیم، مجلس علماء نظامیہ، حلقہ سیفیہ پاکستان، پاکستان فلاح پارٹی، تحریک فدایان ختم نبوت، محافظان ختم نبوت ، جامعہ نعیمیہ لاہور ،جامعہ نعیمیہ اسلام آباد، نیشنل مشائخ کونسل۔