افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان کے صدر اشرف غنی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر وہ مقامی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی پارٹنرز کے ساتھ ہنگامی بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اشرف غنی کا ٹیلی وژن پر مختصر خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا، ”آپ کے صدر کی حیثیت سے میری توجہ مزید عدم استحکام، تشدد اور میرے لوگوں کی نقل مکانی روکنے پر ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا ’’کہ ملک کی سکیورٹی اور مسلح افواج کو دوبارہ متحرک کرتے ہوئے محاذوں پر واپسی میری ‘اولین ترجیح’ ہے اور اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔‘‘
تاہم افغان صدر نے طالبان کے اس مطالبے کا جواب نہیں دیا کہ جنگ بندی اور سیاسی تصفیہ پر کسی بھی مذاکرات کے لیے انہیں استعفیٰ دینا ہو گا۔
قبل ازیں ایسی افواہیں گردش میں تھیں کہ اشرف غنی مستعفی ہونے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا، ”سکیورٹی اور دفاعی افواج کا دوبارہ انضمام ہماری ترجیح ہے اور اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔”
ان کا اپنی عوام سے خطاب اس وقت نشر کیا گیا ، جب طالبان نے صوبہ لُوگر کے دارالحکومت پُلِ عَلَم پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ شہر دارالحکومت کابل سے تقریبا ستر کلومیٹر کی دوری پر ہے اور اس جنوبی شہر کو کابل کے لیے ایک گیٹ وے بھی قرار دیا جاتا ہے۔
صوبائی کونسل کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ طالبان کو پلِ عَلَم میں کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پل عَلَم انتہائی اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے اور اس پر قبضہ کرتے ہوئے کابل پر آسانی سے حملہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب گزشتہ روز ہی طالبان نے ملک کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہروں پر قبضہ کیا تھا۔ نیوز ایجنسی اے پی کی ہی اطلاعات کے مطابق طالبان دارالحکومت سے گیارہ کلومیٹر دور ایک مقام پر بھی ملکی سکیورٹی فورسز سے لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دریں اثناء مشرقی صوبے پکتیکا کے قانون ساز خالد اسد نے نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہفتے کو طالبان نے پکتیکا کے دارالحکومت شرنہ پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ یہ صوبہ پاکستان کی سرحد سے ملحق ہے۔