پاکستان کرکٹ بورڈ نے 19-2018 سیزن کے لیے 33 کھلاڑیوں کو نیا سینٹرل کنٹریکٹ دینے کا اعلان کردیا ہے جس میں کھلاڑیوں کے ماہانہ معاوضے اور میچ فیس میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے۔ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز ہارون رشید، چیف سلیکٹر انضمام الحق اور ڈائریکٹر اکیڈمیز مدثر نذر پر مشتمل سینٹرل کنٹریکٹ کمیٹی نے تجاویز و سفارشات پیش کیں اور پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی نے کھلاڑیوں کی ۔ فہرست کی منظوری دے دی۔
پی سی بی اور کھلاڑیوں کے درمیان 3 سالہ مالیاتی فارمولا ترتیب دیا گیا تھا اور 18-2017 کے مالی سال کے اختتام کے ساتھ ہی وہ اختتام پذیر ہو گیا تھا۔ کھلاڑیوں کے نمائندوں کے طور پر کپتان سرفراز احمد اور سینئر کھلاڑی شعیب ملک نے بورڈ سے مذاکرات کیے جس کے بعد باہمی رضامندی سے 3 سالہ نیا معاہدہ طے پا گیا۔بورڈ نے مختلف کیٹیگریز میں کھلاڑیوں کے ماہانہ معاوضے میں 30-25 فیصد اضافہ کیا ہے جبکہ تمام کیٹیگریز کے لیے میچ فیس میں بھی 20 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں معاہدے میں دوسرے اور تیسرے سال کے دوران ایک مخصوص شرح سے کھلاڑیوں کے معاوضے اور میچ فیس میں اضافے کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ پی سی بی نے ڈومیسٹک سطح پر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک نئی کیٹیگری ‘ای’ کا اعلان کیا ہے تاکہ نئے ٹیلنٹ کو سراہا جا سکے۔نئے سینٹرل کنٹریکٹ میں تجربہ کار محمد حفیظ اے کیٹیگری میں جگہ بنانے میں ناکام رہے اور مستقل ناقص کارکردگی اور باؤلنگ ایکشن کے مسائل کے باعث انہیں بی کیٹیگری میں جگہ ملی ہے البتہ بابر اعظم پہلی مرتبہ اے کیٹیگری میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔ڈوپ ٹیسٹ مسائل اور خراب فارم کا شکار احمد شہزاد سینٹرل کنٹریکٹ حاصل نہ کر سکے جبکہ عمر اکمل لگاتار دوسرے سال سینٹرل کنٹریکٹ حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کی فہرست میں جگہ نہ بنا سکے۔
فخر زمان، شاداب خان اور فہیم اشرف کو عمدہ کارکردگی پر بی کیٹیگری میں شامل کیا گیا ہے جبکہ مستقل انجری کا شکار عماد وسیم کو ایک درجہ تنزلی کے بعد سی کیٹیگری میں شامل کیا گیا ہے۔مجموعی طور پر اے اور بی کیٹیگری میں 6، 6، سی کیٹیگری میں 9، ڈی کیٹیگری میں 5 اور ای کیٹیگری میں 7 کھلاڑی شامل ہیں۔ اے کیٹگری میں اظہرعلی، شعیب ملک، سرفراز احمد، یاسر شاہ، بابراعظم، محمد عامر، بی کیٹگری میں محمد حفیظ، فہیم اشرف، اسد شفیق، حسن علی، فخر زمان، شاداب خان، سی کیٹگری میں محمد عباس، وہاب ریاض، جنید خان، حارث سہیل، امام الحق، محمد نواز، عثمان خان شنواری، شان مسعود، عماد وسیم، ڈی کیٹگری میں رومان رئیس، آصف علی، راحت علی، عثمان صلاح الدین، حسین طلعت اور ای کیٹگری میں بلال آصف، سعد علی، محمد رضوان، شاہین شاہ آفریدی، صاحبزادہ فرحان، عمید آصف، میر حمزہ شامل ہیں۔ دوسری طرف قومی ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں نے ڈیلی الاؤنس اور دیگر ادائیگیاں نہ ہونے تک ایشین گیمز 2018 کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن (پی ایچ ایف) نے ایشین گیمز کی تیاریوں کے لیے کراچی میں لگائے جانے والے ٹریننگ کیمپ میں 27 ممکنہ کھلاڑیوں کو طلب کیا تھا جن میں سے حیران کن طور پر تمام کھلاڑیوں کا تعلق پنجاب سے تھا۔ کراچی میں لگائے گئے کیمپ کے بعد کپتان رضوان سینئر نے دیگر کھلاڑیوں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمام کھلاڑیوں کو ڈیلی الاؤنس اور دیگر واجبات 6 ماہ سے ادا نہیں کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام کھلاڑیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک ہمارے تمام واجبات ادا نہیں کیے جاتے اس وقت تک ہم ایشین گیمز کے لیے نہیں جائیں گے اور ایسا نہیں کہ محض آدھے واجبات ادا کیے جائیں بلکہ جب تک مکمل ادائیگی نہیں ہوتی، ہم ایشین گیمز میں شرکت نہیں کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ایک کھلاڑی کے کم از کم واجبات 8 لاکھ روپے سے زائد بنتے ہیں۔ اس موقع پر ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں نے بھی کپتان کے ہمراہ آواز بلند کرتے ہوئے بائیکاٹ کی حمایت کی اور کہا کہ یہ پوری ٹیم کا فیصلہ ہے اور ہم کپتان کے ساتھ ہیں۔کپتان رضوان سینئر نے اس موقع پر ایک اور سوال کے جواب میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بغاوت نہیں کی بلکہ اپنا جائز حق مانگ رہے ہیں، 6 ماہ سے واجبات ادا نہیں کیے گئے لیکن اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کو ایک عرصے سے فنڈز کی کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے کھلاڑیوں کو واجبات کی ادائیگی میں بھی مشکلات ہورہی ہیں۔ گزشتہ دنوں قومی ٹیم کے منیجر حسن سردار نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہاکی فیڈریشن کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے اور ایشین گیمز اور ورلڈ کپ سے قبل 200 ملین روپے فوری طور پر فیڈریشن کو جاری کیے جائیں۔حسن سردار نے کھلاڑیوں کو درپیش مالی مسائل کا بھی تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کھلاڑی بھی مالی مسائل سے دوچار ہیں کیونکہ انہیں بھی اپنے اہل خانہ کے گزر بسر کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو پہلے ہی نوکریوں کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے اور اگر ایسے میں ان کو ڈیلی الاؤنس کی رقم بھی جاری نہیں کی جائے گی تو وہ میدان میں کس طرح کارکردگی دکھائیں گے؟۔ واضح رہے کہ ایشین گیمز کا انعقاد آئندہ ماہ 18 اگست سے 2 ستمبر تک انڈونیشیا میں ہو گا۔
ایک طرف کرکٹرز کے معاوضوں میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف قومی کھیل ہاکی کے کھیلاڑیوں کو انکے سابقہ واجبات بھی ادا نہیں کیے جا رہے ۔ اس سارے عمل میں جہاں مرکزی طور پر پاکستان ہاکی فیڈریشن نا اہلی کا مظاہرہ کر رہی ہے وہیں پاکستان کی حکومت بھی اس سارے عمل کی زمہ دار ہے ۔ دنیا میں اصول کے تحت میرٹ پر تعیناتیاں کی جاتیں ہیں جبکہ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سفارش پر اہل افراد کی بجائے نااہل افراد بھرتی کرکے پورے پورے محکمے کو تباہ کر دیا جاتا ہے ۔ ہر تعینات ہونے والا سربراہ محدود وقت کو مدنظر رکھ کر کام کرنے کی بجائے مسلسل کرپشن پر ہی اپنا فوکس رکھتا ہے ۔ جس کے باعث محکموں کی کارکردگی میں بہتری کی بجائے مسلسل تنزلی ہی نظر آتی ہے ۔ الیکشن 2018 میں کامیابی کے بعد تحریک انصاف مرکز اور تین صوبوں میں حکومت بنانے جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے نامزد وزیراعظم عمران خان صاحب کرکٹ کی دنیا میں ایک نامور کرکٹر کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ یقینا حکومت بنانے کے بعد انکی ترجیحات میں کرکٹ کی بہتری بھی شامل ہوگی لیکن انہیں کرکٹ کے ساتھ ساتھ قومی کھیل ہاکی پر بھی توجہ دینا ہوگی تاکہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنے والی قومی کھیل ہاکی کی ٹیم کو ایک بار پھر پہلے سے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ملک کا نام روشن کرئے ۔ اس سلسلے میں نئی حکومت اور ہاکی فڈریشن کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد کھیلاڑیوں کے سابقہ واجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ کرکٹ کی طرح انکے معاوضوں میں بھی اضافہ کرنا چاہیے تاکہ وہ اس سے بھی بہتر کارکردگی دیکھانے کا عزم کرکے میدان میں اتریں۔