تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے این ڈی یو میں وار کورس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ملک کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجز سے آگاہ کیاانہوں نے فرمایا کہ ہر طرح کے خطرات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی کی ضرور ت ہے دہشت گردوں کا کوئی مذہب اور قومیت نہیں ہوتی دہشت گرد ی کو آپریشن رد الفساد کے ذریعے جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا ذمہ داریوں سے آنکھیں بند کر لینے سے دہشت گردی کو شکست نہیں دی جاسکتی راقم پہلے بھی کئی کالموں میںذکر کرچکا ہے ڈرون حملوں کو روکنے کے لیے احتجاجاً عمران خان کی طرف سے افغانستان کو بھجوائے جانے والے بڑے امریکی ٹرکوں اور ٹرالوںکو روکنے کی وجہ سے یہ ٹرالے جو کہ وہاں اسلحہ و خوراک ادویات وغیرہ فراہم کرتے تھے روک دیے گئے تو کراچی کے اندر اوراس کے قرب و جوار میں ہزاروںٹرالوں میں سے چھ سواسلحہ والے ٹرالے غائب ہوگئے تھے اب یہ اسلحہ سارے کراچی میںایم کیو ایم کے راہنمائوں اور کارکنوں کے گھروں میں مدفون ہے۔
جن کا راء سے تعلق واضح ہو چکا ہے کہ جن کے کارکن بھارت سے تربیت یافتہ ہیں اور بالآخر”قائد صاحب “کی طرف سے کراچی کے جلسہ کو ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا دیا تھا اس سنگین غلطی پر معذرت تو کیا کی جاتی چند روز بعد لندن سے دور ایک اور ملک میں پہنچ کر نام نہاد غدار قائد نے ایک اجتماع میں کہا کہ اسرائیل ،امریکہ اور بھارت اس کی مدد کریں تو وہ پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے تباہ وبرباد کرسکتاہے۔توبہ بھلی ایسی شر انگیزباتیںکی گئیںجوآخر وقت تک شیخ مجیب الرحمٰن بھی مرحوم مشرقی پاکستان میں نہ کرسکا تھااب کراچی کے مبینہ دہشت گردوں سے مدفون اسلحہ برآمد ہورہا ہے جو کہ عرصہ قبل انہوں نے ہر محلے کے گلی کوچوں رہائشی مکانات کے صحن،لان اور ملحقہ کھیلوں کے گرائونڈز، سکولوں اور باغیچوں وغیرہ میں دفن کرڈالا تھا۔
اب قومی حکمت عملی یہی ہوسکتی ہے کہ تمام محب وطن الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو جمع کرکے وسیع تر قومی اتحاد قائم کیا جائے جس میں با شعور ریٹائرڈ ججوں جرنیلوں اعلیٰ افسروں،وکلاء کی انجمنوں و دیگرمحب وطن گروپوں سے بھی راہنماشامل کیے جائیں اور ملکی وسائل پر گہرے غور و غوض کے بعد ملک گیر پالیسی مرتب کی جائے۔ملک دشمنوں اور حب الوطنو ں کے درمیان لکیرکھینچی جاوے جو سیاسی گروہ یا پارٹی ملکی آئین کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے آپ کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کروا کر قومی دھارے میں شامل ہونے کو تیار نہ ہوں انھیں ایک طرف اور محب وطن افراد کو دوسری طرف رکھ کر قومی پالیسی مرتب ہوایسے ملک دشمن افراد جو پاکستان کی بنیادکو ہی تسلیم نہیں کرتے اور ہمیشہ سے کوشاں ہیںکہ ملک کے حصے بخرے ہوجائیں ان کے خلاف فوراً سخت ترین کاروائی کی جائے۔بڑی کاروائی تو یہ ہے کہ انھیں غیر مسلح کیا جائے یعنی گھر گھر تلاشی کا عمل شروع ہو۔باغیچوں گرائونڈز تک کی بھی کھدائی کرکے ملک دشمن افراد کا چھپایا ہوا سارا ناجائز اسلحہ برآمد ہو دو تین ہفتوں کی مہلت دی جائے۔جس میں جو بھی شخص اپنا ناجائز چھپایا ہوا یا مدفون کیا گیااسلحہ خود نکال کر انتظامیہ کے حوالے کردے اسے عام معافی دی جائے۔بلوچستان سرحد اور سندھ میں جو پچھلے ادوار کے مظالم سے لسانیت،برادی ازم اور علاقائیت کے خوش نما نعروں سے متاثر ہو کر تخریبی کاروائیوں میں ملوث ہوگئے تھے۔
انہیں” اچھے بچے”بننے کے لیے خصوصی سہولتیں مراعات اور رعایتیں دے کرمحب وطن افراد کی صفوں میں واپس آجانے کے لیے تگ و دو کی جائیں تب بھی مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں کہ صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا ہوا نہیں کہتے خارجہ امور پر سیر حاصل رکھنے والے افراد بالخصوص سابق وزائے خارجہ کوپاکستانی وزارت خارجہ میں بطور مشاورتی بورڈ متعین کیا جائے فوراً مستقل وزیر خارجہ مقرر ہوکہ ہم چاروں طرف سے ملک دشمنوں کے گھیرے میں ہیں اور ایٹمی پاکستان ہوتے ہوئے بھی یہو د و نصاریٰ لادین سامراجی قوتیں اور ہندو بنیے وغیرہ ہمیں کھا جانے والی نظروں سے گھورتے رہتے ہیں۔
اب تک خود وزیر اعظم اور وزارت دفاع ہی خارجی امور کو سر انجام دے رہی ہیں اس طرح سے خارجہ پالیسی آدھا تیتر آدھا بٹیر کی صورتحال اختیار کیے ہوئے ہے جو کہ اصولاً ملک کے لیے سخت نقصان دہ ہے خارجہ امور اور بیرونی صورتحال و واقعات کی رپورٹ مستقلاً نامزد وزیر خارجہ اسمبلیوں کے فلور پر پیش کرنے کاپابند ہوتاکہ گھمبیر حالات میں پاکستانی خارجہ پالیسی اتفاق رائے سے مرتب ہوتی رہے۔موجودہ حکمرانوں اور اپوزیشنی راہنمائوں میں سخت کھینچا تانی اور سر پٹھول کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے نئے الیکشن بھی ہوجائیں تو بھی یہ ایک دوسرے کو تسلیم نہ کریں گے اس لیے رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کے راہنمائوں پر مشتمل حکومت ایک سال کے لیے بنا کرکرپشن کنگزخواہ وہ کسی سیاسی جماعت کے سربراہ یا راہنما ہی کیوں نہ ہوں کے خلاف افواج کی نگرانی میں موثر کاروائیاں کرکے ساری لوٹی ہوئی پاکستانی دولت بیرون ملک سے واپس منگوا کر صاف ستھرے شفاف انتخابات کے ذریعے حکمرانوں کا انتخاب کیا جائے۔