تحریر: طارق حسین بٹ، چیرمین پیپلز ادبی فورم وقت سب سے بڑا ستاد ہوتا ہے جو افراد اور قوموں کو آنے والے دنوں کے بارے میں ایسے لائحہ عمل کی روشنی عطا کرتا ہے جو ان کے مستقبل کی بنیادیں رکھنے میں ممدو معاون ثابت ہو تی ہے اور انھیں ایک بہتر کل کی نوید سناتی ہے۔آنے والا کل اقوام اور انسانوں کی زندگی میں انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ جس قوم کا کل آسودہ ہو گا وہی قوم امامتِ دنیا کی سرفرازی سے بہرہ ور ہوگی اور دنیا اسی کی جانب نگاہیں گھاڑے ہوئے ہو گی۔
اس کی سب سے بڑی مثال چین کی ہے جو دھیرے دھیرے ابھر رہی ہے اور دنیا کی نگاہیں اس پر مرکوز ہو رہی ہیں کیونکہ انھیں نظر آ رہا ہے کہ آنے والا کل چین کا ہے۔کوئی قوم نہ سدا حکمران رہی ہے اور نہ ہی سدا محکوم۔عروج و زوال کے ادوار ہر قوم پر پھرتے رہتے ہیں،کبھی یونان،کبھی ایران،کبھی رومن،کبھی جرمن،کبھی ہسپانوی، کبھی روس اور کبھی انگلینڈ جبکہ آج کادور امریکہ کا دور ہے اوردنیا کی تمام اقوام اس کی مٹھی میں بند ہیں وہ جیسے چاہتا ہے خوو بخود ہوتا چلا جاتا ہے لہذا کوئی قوم امریکہ سے دشمنی کا ڈ ول ڈال کر امن و سکون میں نہیں رہ سکتی لہذا ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں کے مصداق ہر قوم امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتی ہیجس کو اس بات میں شک ہو وہ افغانستان اور عراق کی جنگ کا تفصیلی جائزہ لے لے اس پر ساری حقیقت خوبخود ہی واضع ہو جائیگی۔
اسرائیل جیسی قوم بھی کئی صدیوں بعد اپنی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے حالانکہ یہ قوم صحرا نورد قوم کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔ دو ہزار سالوں تک اس کا نہ کوئی گھر تھا اور نہ کوئی ٹھکانہ تھا اور اور نہ کوئی پرسانِ حال تھا لیکن اس نے پھر بھی ہمت نہ ہاری بلکہ یروشلم کی دیواروں سے رو رو کر اپنی بقا کی دعا ئیں مانگا کرتی تھی اور اب حالت یہ ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور اس کے آہنی شکنجوں میں جکڑی ہوئی ہے کیونکہ پوری دنیا کا میڈیا اور بینکاری نظام ان کے ہاتھوں میں ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ امریکہ کا ہر صدر اسرا ئیل کو زیادہ سے زیا دہ تحفظ فراہم کرتا ہے، اس کے ناز نخرے اٹھا تا ہے اوراس کے سامنے کسی کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔،۔بھارت کی کہانی بھی اسرائیل سے مختلف نہیں ہے۔ایک ہزار سال تک مسلمانوں کی غلام رہنے کے بعد ہندو قوم کے اندر بقا کی خوا ہش انتہائی شدید تھی۔جو قوم غلام ہوتی ہے وہی سمجھ سکتی ہے کہ غلامی کیا ہوتی ہے ۔ایسی قوم کو ہمیشہ دوسری اقوام کا مطیع و فرما بردار بن کر رہنا ہوتا ہے ،گویا اغیار اس قوم کے حکمران ہو تے ہیں۔وہ اپنی مرضی سے اپنے مذہبی تہوار اور مذہبی رسومات پوری آزادی سے منانے سے محروم ہوتی ہے۔
India
اس وقت بھارت میں گائے کی قربابی پر پابندی لگ چکی ہے حا لانکہ مسلمان بھارت میں غلام نہیں ہیں بلکہ بھارت کے شہری ہیں اور شہری ہونے کے ناطے یہ ان کا حق ہے کہ وہ اپنے مذہبی فرائض بلا کسی ڈر اور خوف کے ادا کریں لیکن یہ کیسی آزادی ہے کہ مسلمانوں کے لئے گائے کی قربانی پر پابندی لگا دی گئی ہے حالانکہ گائے کی قربانی کرنا مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے ۔اگر مذہبی فریضہ کو یوں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو پھر مذہبی قوانین پر عملداری تو بہت بعد کی بات ہے جس کے نافذ ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ راجہ داہر کی شکست کے بعدہندو قوم اپنی بقا کی جنگ میں بری طرح سے ناکام ہوئی جبکہ مسلمان برِ صغیر کے حکمران ٹھہرے جن کی ناز برداری کرنا ہندو قوم کی مجبوری ٹھہری۔یہ دور بہت طویل دور تھاتا آنکہ انگریز برِ صغیر پر قابض ہوئے اور مسلمانوں کو اقتدار سے محروم ہونا پڑااور وہ معتوب ٹھہرے۔انگریزوں نے مسلمانوں کی جگہ ہندوئوں کو ترجیح دینا شروع کی اور یوں ہندو ایک دفعہ پھر برِ صغیر پر اپنی حکمرانی کے خوا ب دیکھنے لگے۔
وہ شخص جس نے ان کے اندر ہندو غلبے کی خواہش کو تیز تر کیا اس کا نام موہن داس گاندھی تھا اور اس کی قوم نے اس کی اس ہندوانہ قوم پرستی کی وجہ سے اسے مہاتما کا خطا ب دیا۔مہاتما گا ندھی نے انگریزوں سے ساز باز کر کے مسلمانوں کو حکومتی ایوانوں سے باہر دھکیلا تا کہ کل کو جب ہندوستان کو آزادی کا پروانہ تھما یا جائے تو اس کے حقدار صرف ہندو ہی ٹھہریں۔مہاتما گاندھی کی اس سازش کو علامہ اقبال نے بر وقت بھانپ لیا لہذا مطالبہ پیش کر دیا کہ شمال مغربی علاقوںمیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے انھیں علیحدہ اسلامی ریاست قائم کرنے کی اجازت دی جائے ۔اس مطالبے نے ہندوئوں کو آگ بگولہ کر دیا کیونکہ اس طرح ہندوئوں کے خلاف پھر ایک ایسا مورچہ لگ سکتا تھا جو کسی وقت بھی ان کے لیئے دردِ سر بن سکتا ہے ۔مہاتما گاندھی نے مذہبی بنیادوں پر قائم ہونے والی مملکت کے خلاف بے شمار دلائل دئے لیکن اپنی قوم پرستی کو اپنی مذہبی بنیادوں پر ہی استوار کیا۔
Muslims
سچ تو یہ ہے کہ ہندو اپنی ایک ہزار سالہ ہزیمت کا بدلہ چکانا چاہتا تھا جو صرف اسی صورت میں ہی ممکن ہو سکتا تھا کہ پوری مسلم آبا دی ہندوئوں کے رحم و کرم پر ہوتی ویسے ہی جیسے اس سے قبل ہندوئوں کی کل آبادی مسلمانوں کے رحم و کرم پر تھی۔مسلمان تو فراخ دل تھے لہذا انھوں نے ہندو ئوں کو زبردستی مسلمان بنانے یا ان کی عبادت گاہوں پر قبضہ کرنے سے احتراز کیا۔ یہ تو صوفی ازم کا کمال تھا یا اسلام کے سنہری اصولوں کی کشش تھی کہ صدیوں سے پسے ہوئے عوام اسلام کی روشنی سے فیضیااب ہوئے اور اونچ نیچ کی دیواروں میں پستے رہنے کی بجائے اسلام کے دامن میں پناہ لی لیکن ہندوئوں کی تنگ نظری سے یہ خدشہ موجود تھا کہ وہ مسلمانوں کی شناخت کو تہس نہس کرنے کی سازشیں کریں گئے اور ریاستی جبر سے مسلمانوں کو کچل دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گئے ۔ہندوئو ں کی اس طرح ی حرکات کے شواہد ہمارے سامنے ہیں جس میں بدھ مت کو برِ صغیر سے نیست و نابود کیا گیا۔بدھ مت جو کسی زمانے میں برِ صغیر کا سب سے بڑا مذہب تھا اب بھولی بسری داستان بنا ہوا ہے اور اس کا یہ حشر ہندو ازم کے ہاتھوں ہوا ہے۔کیا کسی کے حیطہِ ادراک میں آ سکتا تھا کہ برِ صغیر کا سب سے بڑا مذہب ہندو ازم کے ہاتھوں اپنا وجود کھو دے گا؟ہندو کی خواہش یہی تھی کہ اسلام کے ساتھ بھی اسی طرح کا سلوک روا رکھا جائے ا ور اس کی بیخ کنی کی جائے اور یہ اسی صورت میں ممکن تھا جب ہندو ازم کا پورے برِ صغیر پر تسلط قائم ہوتا اورساری مسلم آبادی اس کے رحم کرم پر ہوتی۔
اس نے بڑا واویلا کیا بڑے پینترے بدلے،بڑی سازشیں کیں،بڑے لالچ دئے لیکن ان کی یہ خواہش حقیقت کا جامہ پہننے سے محرو رہی کیونکہ ان کے مدِ مقابل ایک ایسا انسان کھڑا تھا جسے نہ خرایدا جا سکتا تھا اور نہ جسے ڈرایا جا سکتا تھا۔وہ چٹان کی طرح ڈٹ جانے والاانسان تھا اور پاکستان اس کے ڈٹ جانے کی ادا کا تحفہ ہے۔اسے وزارتِ عظمی کی پیش کش کی گئی لیکن اس نے اسے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا کیونکہ وہ اس کے پیچھے ہندو ئوں کے بے رحم عزائم کو دیکھ رہا تھا۔اس نے سکھوں کو بھی کہا کہ تمھارے ساتھ دھوکہ ہونے والا ہے لیکن ماسٹر تارا سنگھ کو مہا تما گاندھی نے اپنے شیشے میں اتارا ہوا تھا لہذا وہ کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر تھا۔اس کی ضد پر پنجاب کی تقسیم بھی ممکن ہو ئی تھی لیکن اگر وہ مسلمانوں کا ساتھ دیتا تو پھر پنجاب تقسیم نہ ہوتا ۔سکھوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ ایک ایسی خونچکاں داستان ہے جس نے سکھ ازم کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔
جرنیل سنگھ بھنڈراوالا اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ گولڈن ٹمپل میں جو کچھ ہوا وہ ہندو ازم کا سفاک چہرہ دکھانے کیلئے کافی ہے۔سکھوں کا قصور کیا تھا ؟وہ کیا چاہتے تھے؟ ان کے مطالبات کیا تھے؟ ایک علیحدہ ریاست (خالصتان ) کے مطالبہ کے معنی کیا یہ ہیں کہ مطالبہ کرنے والوں کو گولیوں سے بھون دیا جائے ؟انھیں بھڑکتے ہوئے آگ کے شعلوں میں جس طرح جلایا گیا تھاوہ انسانیت کے چہرے پر ایسا بد نما داغ ہے جسے کبھی دھویا نہیں جا سکتا۔ہندو ازم کی سپر میسی اور اقلیتوں کو زیرِ نگیں رکھنے کا جنون ہی سکھ ازم کے قتلِ عام کی بنیاد تھا۔جب سکھ ازم کو تاخت و تارج کر لیا تو پھر مسلمانوں کی جانب رجوع کیا گیا اور ١٩٩٢ کو بابری مسجد پر دھاوا بول دیا گیا تا کہ مسلمانوں کوبھی یہ پیغام دیا جائے کہ بھارت کے اندر اگر مسلمانوں کو رہنا ہے تو انھیں ہندوئوں کے زیرِ نگین رہنا ہوگا۔ان کی اپنی شناحت تو ہو گی لیکن حکومتی سطح پر ان کی کوئی آواز نہیں ہو گی شائد یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو بھارتی پارلیمنٹ سے دور رکھا جاتا ہے اور ان پر نوکریوں کے دروازے بند کئے جاتے ہیں تا کہ ان کیلئے اپنی سانسوں کا سلسلہ قائم رکھنا مشکل ہوجائے اور وہ گھبرا کر ہندو ازم میں پناہ ڈھونڈ نے کا سوچنے لگ جائیں۔کیا ایسا ممکن ہے ؟