تحریر : محمد شفقت اللہ خان سیال قدیم زمانے میں جب دنیا کی آبادی زیادہ نہ تھی تو ہر ایک قوم دوسری قوم سے مختلف طور طریقے، رسم ورواج اور انساب کے اختلاف کی وجہ سے اپنے آپ کو دوسری قوم سے جداشمار کرتی تھی’جوں جوں وقت گزرتا گیا، آبادی میں اضافہ ہوتا گیا، خاندانوں میں اضافہ ہوتا گیا تو اس صورت میں نسبی اور خاندانی بنیادوں پر قومیت کا تصور ابھراقومیت دو طرح کے معنی خود میں رکھتی ہے ایک وہ جو آپ کا ملکی تشخص ہے یعنی پاکستانی ‘ہندوستانی ‘امریکی ‘ برطانوی’، عربی، ترکی، عراقی سندھی، مصری، شامی، نجدی ، حجازی، یمنی، پٹھان، سندھی، بلوچ اور پنجابی وغیرہ وغیرہ دوسرا ہمارا نسب ملک ‘چوہدری ‘گجر ‘راجہ ‘کی تقسیم شروع ہو گئی وغیرہ وغیرہ لیکن ایک معاشرہ جیسے جیسے منظم ہوتا گیا ویسے ویسے نسب میں چند مزید اضافے بھی ہوتے چلے گئے جیسے کہ جس کا جو پیشہ ہوا اس کی نسبت سے اس کی قوم بھی سمجھی جانے لگی جیسے موچی ‘ نائی ‘ ترکھان۔لوہار۔کمہار۔ وغیرہ وغیرہ اور ان میں بہت سارے پیشو ں کو انتہائی نیچ بھی سمجھا جانے لگا حالانکہ محنت کی کمائی کو نبی کریم ۖ نے سب سے زیادہ پسند کیاہے’۔
آج ہم پڑھے لکھے ان پڑھ ہے۔ہم لوگوں میں اکثر ایسے لوگ بھی شامل ہے ۔جن کو یہ معلوم ہی نہیں کہ پیشہ اور قومیت ہے کیا کئی تو ایسے لوگ ہے۔جو جان بوجھ کر قومیت کو بھول کر لوگوں کو پیشے سے یاد کرتے ہیں۔ان لوگوں کی خاصیت آپ کو بتانے جارہا ہوں۔یہ خیر سے وہ لوگ ہے۔جو منہ پر تو آپ کو بیٹا ،بھائی،چاچا،بابا کے خطاب سے نوازتے ہیں۔اور جیسے ہی ہم ایک دوسرے سے دور ہوئے۔توکمر پیچھے برائی کرنی شروع کر دیتے ہیں یہاں آپ ان کو منافق کا خطاب بھی دے سکتے ہے۔جو ایک دوسرے کے دکھ میں اس لیے شامل ہوتے ہے۔کہ ان کا تماشا دیکھ آئے۔ان کو یہ پتہ نہیں کہ اللہ تعالی کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے۔اب دوسروں کے دکھ کے تماشے دیکھے ان کا مذاق اڑئے لیکن اللہ رب العزت کو ایسی کوئی بات پسند نہیں جس میں کسی کی دل آزاری کی جائے۔خود کو نواب کہنے والوں کو معلوم نہیں کہ وہ نواب کیسے بنے۔
ان سے پہلے ان کے باپ داد کیا کرتے تھے۔اور ان کی قومیت کیا تھی۔لیکن جیسے جیسے لوگوں کے پاس پیسہ آتا گیا۔وہ اپنے سب کچھ بھول کر اور شہروں میں رہائش پذیر ہوگئے۔نئی قومیت کے ساتھ۔یہ بھی بھول جاتے ہے۔کہ ان کے باپ داد کو کس نام یا کس قومیت سے پہچان کی جاتی تھی۔افسوس تو اس بات کا یہی ہے۔کہ پہلے دور میں سید۔نواب وغیرہ تھے انہوں نے اپنی خوشی غمی کے لیے کمہار۔نائی وغیرہ رکھے ہوتے تھے۔اب یہاں آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھوں گا۔اب کوئی غریب سید ۔سیال ۔نواب وغیرہ کوئی ہوکوئی نائی کی دوکان کھولے تو وہ نائی نہیں بلکہ قومیت اس کی وہ ہی ہے چاہیے وہ سید ہو یا سیال۔پیشہ اس کا نائی کا ضرور ہوگا۔مگر یہاں اس پڑھ لکھے اس دور میں بھی اکثر لوگ ایسے جو پڑھے لکھے ان پڑھ بنے ہوئے ہیں۔یہ اس سید یا سیال کو اس کے پیشے سے بولنا پسند کرتے ہے۔جن کو نہیں معلوم وہ تو ٹھیک اگر جن کو معلوم ہے ان کی قومیت کا تو ان کو تو چاہیے کہ ان کو ان کی قوم سے بولا جائے۔مگر یہاں تو سب کچھ ہی الٹا چل رہا ہے۔جس کے پاس چار پیسے آگئے تو وہ لوگ اس کی عزت ایسے کرتے ہیں ۔جیسے وہ کوئی سید یا نواب ہو۔
Flags
قومیت اس کی نہ سید کی ہوتی ہے نہ سیال کی وہ تو اپنا سب کچھ چھوڑ کر دوسرے شہروں میں بسا ہوتا ہے۔کیسی کوکیا معلوم کہ اس کی قومیت ہے کیااگرایسے لوگوں کو کوئی غریب بھائی بہن ملنے چلابھی جائے۔توان کا اس کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے۔جیسے کہ وہ کوئی اچھوت ہو۔اس خود کو معلوم نہیں کہ وہ کل خود کیا تھا۔آج اگر اس کو اللہ پاک نے عزت دی ہے۔تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنے ہر غریب بہن بھائی کی لوگوں کے سامنے بے عزتی کرئے۔آج اس مہنگائی کے دور میں بڑی بڑی قوموں والے کوئی ٹھیکداربن گیا۔کوئی لوہار بن گیا ۔کوئی درکھان بن گیا۔کوئی مزدوری کرنے لگا۔تو کوئی زمین پر کھیتی باڑی کرنے لگا وغیرہ لیکن یہ جو بھی کام کرئے یہ ان کا پیشہ ہے۔یہ ان کی قومیت نہیں۔لیکن آج جس کے پاس پیشہ آ جاتا ہے وہ جائز ہو یا ناجائز وہ اپنی قوم بھی تبدیل کرلیے اس کو کوئی نہیں پوچھنے والا کہ تو نے اپنی قومیت تک تبدیل کرلی۔کل تو غریب تھا تو تیری قومیت اور تھی۔
آج اللہ نے تم کو چار پیسے کیا دیئے تو نے تو اپنی قومیت ہی تبدیل کرلی۔لیکن ان کو یہ معلوم نہیں کہ قومیت تبدیل کرنے سے کتنا فرق پڑئے گا۔اس کا باپ تو ساری زندگی لوگوں کو اپنی قوم بتاتا رہا۔اور بیٹے کے پاس چار پیسے کیا آئے اس نے قومیت تبدیل کر کے باپ داد کی قوم کو بھول جاتے ہیں۔اور پھر دوسرے کی طرف ایسے انگلی کرتے ہیں ۔جیسے خود دودھ کے دھولے ہو۔قوم والے آدمی کو ایسے بولاتے ہے۔جیسے وہ کوئی عرش سے اترئے نواب ہو۔دوستوں میرا یہ کالم لکھنے کا مطلب ہے۔کہ کیسی کے دل آزاری نہ کرئے۔
ہو سکتا ہے کہ وہ کیسی سید ۔نواب ۔سیال وغیرہ قوم کا ہو اور وہ مجبوری کے تحت کوئی اور پیشہ اپنایا ہوا ہو’ یہاںقرآن پاک کی ایک آیت ملاحظہ ہو لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا ( یعنی آدم) اس سے اس کا جوڑا بنایا، پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے)پھیلا دیے (النسا:1)۔ نبی کریم ۖ نے آخری خطبے میں صاف صاف سمجھایا ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر، یا عجمی کو عربی پر، یا کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور فضیلت کا دارومدار صرف تقوی ہے۔