اقوام کی لڑائیاں مگر کیسے

Nations War

Nations War

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
جدہ ہمارے جد امجد حضرت آدم کے نام سے صدیوں سے منسوب چلا آرہا ہے۔ اماں حوا اور آدم کی دعائیں عرفات کے جبل رحمت کے مقام پر قبول ہوئیں۔ اور ساتھ ملاقات بھی وہیں سے اولاد آدم کا سلسلہ شروع ہوا آج بھی ان کی سنت میں بے اولاد جوڑے جبل رحمت کے متصل نصب شدہ خیموں میں اور تعمیر شدہ عمارات میں جمعرات کی رات کرائے پر کمرے حاصل کر تے ہیں۔ اور اولاد کی نعمت حاصل کرنے کی امید لئے آتے ہیں۔ پھر جدہ میں انکا قیام ہوا اور جدہ کے قدیم اور واحد شہر باب مکہ میں اماں حوا کی تیس فٹ لمبی قبر مبارک دنیا کے لئے مرجع خلائق ہے۔ تب سے باب مکہ بیرون دنیا کے مسلمانوں کا سمندر کنارے بیت اللہ کو حاضری حج و عمرہ کے زائرین کا پہلا احد باب مکہ شہر کا عمل قیام میں آیا جہاں جدہ کی بندرگاہ میں حجاج کا پہلا پڑئو ہوتا اور بحری جہازوں کے ذریعے واحد آنے جانے کا راستہ بھی قارئین 1975ء میں جب ہم ہزاروں دیگر پاکستانیوں کشمیریوں اور دیگر ممالک کے محنت کشوں کے ساتھ جدہ پہنچے تو جدہ کا یہ واحد شہر باب مکہ ایک طرف طویل ترین سمندر اور باقی تمام اطراف لق دق صحرا میں گھیرا چھوٹا سا شہر جس کی چھوٹی چھوٹی گلیاں ناپختہ سڑکیںتھیں جہاں سے ضروریات زندگی کی اشیاء حاصل ہوتیں اور چالیس میل دور جرمن کمپنی ہوختیف کے ہزاروں ورکرز جمعہ جمعرات ٹوٹا ہائی ایس ، بسوں میں آتے جاتے خریدوفروخت کرتے ۔ ہمارا ایک پاکستانی جدہ کے واحد کنگ عبدالعزیز ہسپتا ل میں کام کرنے والے جرمن گورے کا شیو ر لسٹ کار کا ڈرائیور تھا ایک دن وہ بھی مکہ کی تنگ گلیوں میں اپنی کار لے آیا۔ اور بازار کی ایک گلی میں داخل ہوا اس گلی کی نکڑ پر ایک یمنی اپنی پھل فروٹ کی ریڑی لئے کھڑا تھا۔

پاکستانی نے اسے کہا یا اخی مجھے راستہ دو مگر غصے کا پتلا وہ یمنی نہ مانا کافی دیر گزر گئی تنگ آکر پاکستانی گاڑئی سے اترا دھوتی والے یمنی کی ایک ٹانگ پکڑی دوسرا ہاتھ اسکے سر پر رکھا اور ٹانگ اس کی گردن پر چڑھا دی ریڑھی ہٹائی اور یہ گیا وہ گیا۔ یمنی گلی میں گیند کی طرح پھر رہا ہے شور کر رہا ہے ٹانگ اترنے کو نہیں آرہی لوگ اگھٹے ہوئے کوئی نزدیک نہیں آرہا ہنس رہے ہیں آخر پولیس آئی وہ دیکھ کر دھنگ رہ گئی ان کو ہنس ہنس کر دورے پڑنے لگے اس کو یہ چنڈی گاٹا کس نے کیا کسی نے کہا ایک پاکستانی تھا مارے ہنستے بھی جا رہے ہیں اور واللہ پاکستانی شاطر کہہ رہے ہیں۔ یاد رہے ان دنوں مکہ شہر کا کاروبار زیادہ تر یمنیوں کے ہی ہاتھ میں تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے آلہ دین کا چراغ تھا یا سعودی حکمرانوں کا اپنے ملک کو جدید طرز پر بنانے کا جنون دیکھتے ہی دیکھتے عمارات آسمانوں کو چھونے لگیں۔ سمندر کی بھرائی روڑوں کی کشادگی طویل ترین پل صرف پندرہ سالوں میں جدہ کا شہر پیرس بن گیا۔ ایک طرف اس شہر کا کنارہ سو میل دور رابع تک اور دوسری طرف بحر شمالی جنوبی کو چھونے لگا زندہ قومیں ایسی ہوتی ہیں۔ آج نہ شاہ خالد رہا نہ شاہ فہد اور نہ ہی شاہ عبداللہ لیکر دنیا کا جدید ترین سعودی مملکت صدیوں سے قائم یورپ و امریکہ کا مقابلہ کر رہا ہے۔ اور عرب غریب و امیر عوام اس سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔

ہماری طرح غلام قوم نہیں ذہنی غلام نہیں بھٹو ضیاء کی حاصل کردہ جوہری قوت ہونا ایوب کے بنائے ڈیم صنعتی ادارے نئے بسائے شہر نہروں کا جال اور پھر ناہل نوازشریف کا سعودی مملکت سے متاثر ہو کر ہائی ویز موٹر ویز لال بسیں پیلی ٹیکسیاں شہباز کی لائی ہوئی میٹرو جہاں سے ہر روز ہزاروں غریب مستفید ہو رہے ہیں اور آئندہ انکی نسلیں بھی ہوتی رہیں گی۔ مگر ہم احسان فراموش قوم ناانصاف قوم انتشار زدہ قوم ۔ اس سے قبل آئے تمام اپنے محسنوں کی کیتی کرتی سب کھو میں ڈال دی ۔ خیر قارئین میں موضوع سے ہٹ گیا۔ قوموں کی لڑائیاں کیسی ہوتی ہیں۔ عربی جب لڑتے ہیں تو وہ ایک دوسرے پر تھوکتے ہیں مجنوں مصریوں کو یمنی یا جدو فرعون اور وہ یمنیوں کو ابرہہ کی نسل اور کھوتا گدھا کہتے ہیں۔ ایک ہاتھ میں ثوب او ر دوسرے ہاتھ میں سر سے اتار ا رنگ پھینکتے ہیں۔ غصہ نکالتے ہیں جب غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو ناک سر پر آبیار دیتے معافی مالش بس ۔ فلپانی تھائی لینڈی جب لڑتے ہیں تو وہ ہاتھوں کے مکے بنا کر باکسنگ طرز اور پھوں پھوں کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ہماری کمپنی میں ایک فلپائنی اور ایک کشمیری کی لڑائی ہو گئی۔ فلپائنی نے مکے تان لئے اور پھوں پھوں کرنے لگا کشمیری نے ایک ہاتھ سے اس کے مکے روکے اور دوسرا ہاتھ اس کی گردن میں ڈال کر نیچے گرا لیا۔ جب فلپائنی نے ہار مانی دونوں اٹھے تو اس نے پوچھا ۔ مسٹر یہ تم نے کونسا دائو لگایا کشمیری بولا یہ پاکستانی دھوبی ٹپکا دائو ہے۔

آئندہ ہمارے نزدیک نہ آنابنگالی یمنیوں کی طرح ہی لڑتے ہیں۔ سب سے شریف قوم انڈونیشی ہیں کچھ کہو نہ اپنوں سے لڑائی نہ بیگانوں سے افریقی لاتوں سے فلائنگ ککس سے ہاوی ہوتے ہیں۔ اور انگریز کو آپس میں لڑتے ہی نہیں۔ اپنے کام سے کام ہاں وہ اگر لڑتے ہیں تو صرف مسلمانوں سے مسلمان جہاں کہیں کا بھی ہو ۔ وہ نسلوں کی نسلیں تباہ کر دیتے ہیں۔ جہاں موقع ملے جب کوئی آنکھیں دیکھائے تب پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ مگر پھر جھتہ بنا کر وارکرتے ہیں۔ بدقسمتی ہم مسلمانوں کی جب تک چھاپہ مار لڑائیاں لڑتے رہے کامیاب رہے مگر جب آنے سامنے کھڑے ہوئے تو پیچھے سے اپنے القمی ہی میر جعفر میر صادق پیتھ میں چھرا گھونپتے آرہے اور آگئے سے انگریز اس طریقہ واردات سے کامیاب ہوتے آئے اور ہو رہے ہیں ۔ ایک دفعہ انگریز جدہ کی ایک کمپنی میں بلاک لگانے والے مستریوں کو چیک کر رہا تھا ۔ ہمارے پاکستانی مستری کے لگائے بلاک پسند نہ آئے بار بار اکھیڑ دیتا ۔ اوپر سے کڑی دھوپ تیسری بار جب وہ اس کے گھنٹہ بھر کے لگائے بلاک پھر سے اکھیڑنے لگا تو اس نے اپنا ہتھوڑا اٹھایا انگریز انجینئر کے سر پر دے مارا اور بھاگ گیا دو سا ل تک نہ پکڑا گیا۔

تنگ آمد بجنگ آمد انگریز پہلے اسٹریچر پر ہسپتال اور پھر اپنے ملک بھاگ گیا۔ ہائے کیا سنائیں نہ سنائیں دوستو رہی بات ہندووں کی تو ہندووں آپس میں کبھی نہیں لڑتے نہ انفرادی نہ ہی اجتماعی نہ باہر نہ ہی اپنے ملک میں ۔ چھتیس صوبوں میں بسنے والے اسی کروڑ ہندو کبھی نہیں لڑے وہ کل بھی اگھٹے تھے اور آج بھی ہیں یہی ان کی کامیابی ہے۔ صرف ہم بدقسمت پاکستانی قوم ہیں۔ انفرادی بھی لڑیں تو پہلے سوٹی ڈانگ یا دھوبی پٹکا تھا مگر اب و و روایتی لڑائی بھڑائی چھوڑ دی اب سیدھی سیدھی گولیاں چاقو چھری جب دل چاہا جہاں چاہا لعشیں گراتے ہیں۔ بچوں کی بڑوں کی لاشیں عورتوں کی لاشیں بوری بند لاشیں سو بچاس کے لئے زمین مکان کے لئے عورت دولت کے لئے ہر طرف لاشیں یہ ہماری بدقسمتی اور بدبختی نہیں تو اور کیا ہے یہ ہماری بحیثیت قوم بحیثیت معاشرہ تنزلی ہے۔ چار صوبے آپس میں لڑ رہے ہیں۔ چار گورنر چار وزیر اعلیٰ کی لڑائیاں اور تو اور صدر وزیر اعظم حاضر غیر ھاضر ۔ گالیاں بدتمیزیاں بدتہذیبی جوتا ماری قانون ساز اداروں میں لڑائیاں اور ججوں کے چیمبروں میں بھی لڑائی لگتا ہی نہیں کہ ہم ایک مسلمان مہذب قوم ہیں۔ جس قوم کے رہبرو رہنما ایسی حالت میں گتھم گتھا ہوں سڑکوں پر چوراہوں پر ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالیں ان کی نسلیں کیا کریں گی۔ غور وفکر کا مقام ہے۔ ہم عام شہری کیا کر سکتے ہیں سوائے رونے کے قارئین یہ تھی اقوام عالم کی لڑائیاں اور اپنے معاشرے کی ایک جھلک آئو سب ملکر پڑھیں۔ انا لا للہ وانا الیہ راجعون

Haji Zahid Hussain Khan

Haji Zahid Hussain Khan

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
ممبر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ
hajizahid.palandri@gmail.com