تحریر: کامران غنی مشہور صحافی رضوان احمد (مرحوم)2011 ء میں اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے۔ وہ جب تک زندہ رہے قومی ، ملی، سیاسی و سماجی مسائل پر لکھتے رہے۔ 9 ستمبر 1947 کو بارہ بنکی کے ایک چھوٹے سے قصبہ موئی میں پیدا ہونے والے اس بے باک صحافی کے زندگی کے بیشتر ایام پٹنہ میں گذرے۔ ہمارا یہ المیہ ہے کہ جب تک ہمیں کسی فرد یا گروہ سے مفادات وابستہ ہوتے ہیں ، ہم اس کی قصیدہ خوانی کرتے ہیں۔ اسے عہدہ عطا کیا جاتا ہے۔ اعزازات و انعامات سے نوازا جاتا ہے رضوان احمد جب تک زندہ رہے ریاست، بیرون ریاست حتی کہ مختلف ممالک سے بلائے جاتے رہے۔ انھیں اعزازات و انعامات سے نوازا جاتا رہا لیکن جیسے ہی ان کی آنکھیں بند ہوئیں ہم نے بھی ان کی خدمات سے آنکھیں بند کر لیں۔
اشرف استھانوی قابل مبارکباد ہیں کہ انھوں نے رضوان احمد مرحوم کی چوتھی برسی کے موقع سے ان کی شخصیت اور خدمات پر ایک جامع کتاب ترتیب دے کر مرحوم صحافی کو بہترین خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ جیسا کہ کتاب کے عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ زیر نظر کتاب ڈاکٹر رضوان احمد کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ اس کتاب میں رضوان احمد کی شخصیت پرڈاکٹر سید احمد قادری، معصوم مرآبادی، ڈاکٹر شہباز عالم اور ریاض عظیم آبادی کے پر مغز مضامین کے علاوہ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کا ایک انٹرویو اور رضوان احمد کے 48 منتخب مضامین شامل کئے گئے ہیں۔ آخر میں حسن نواب حسن، اشرف استھانوی اور ظہیر صدیقی نے رضوان احمد کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
یہ کتاب اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس مختصر سی کتاب میں رضوان احمد مرحوم کی مکمل زندگی کا تقریباً احاطہ کر لیا گیا ہے۔ مرتب نے رضوان احمد کے جو منتخب مضامین اس کتا ب میں شامل کئے ہیں وہ مرتب کے حسنِ ترتیب کے غماز ہیں۔ یہ مضامین سیاسی نوعیت کے بھی ہیں ، سماجی، قومی و ملی نوعیت کے بھی۔ ان مضامین کو پڑھ کر رضوان احمد کی سیاسی بصیرت اور قومی و ملی درد کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ بابری مسجد کے موضوع پر اپنے ایک مضمون میں وہ لکھتے ہیں: ”سوال صرف ایک مسجد کی شہادت یا پھر اس زمین کے ٹکرے کا نہیں ہے جس پر پانچ سو برسوں سے وہ مسجد بنی ہوئی تھی، بلکہ سوال اس بات کا ہے کہ کیا مسلمانوں کو اس ملک میں اُن کے جائز حقوق حاصل ہوتے رہیں گے یا پھر انہیں اُن کے آئینی حقوق سے محروم کر دیا جائے گا۔”
Rizwan Ahmed
رضوان احمد صرف ایک منجھے ہوئے صحافی ہی نہیں تھے۔ وہ ایک بہترین افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کے تین افسانوی مجموعے شائع ہوئے۔ یہ اور بات ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی صحافت کے لیے وقف کر دی اور تادمِ مرگ ظلم و استحصال اور ناانصافیوں کے خلاف قلمی جہاد میں شامل رہے۔ادب کے تعلق سے ان کا نظریہ بالکل واضح اور سلجھا ہوا تھا۔ جدید افسانے کے حوالے سے ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ”تجربے ہر زمانے میں ہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں۔ لیکن ہمارے یہاں تجریدیت یا ابسٹریکٹ کے نام پر جو کچھ ہوا اس کے منفی نتائج ہی برآمد ہوئے۔ مثبت کچھ بھی نہیں نکلا۔ افسانہ وہی ہے جو انسان کے ذہن کو اپنی جانب راغب کرے اور جو کچھ دیر یا تا دیر سوچنے پر مجبور کرے۔ جو ذہن کو معمہ میں الجھا دے، وہ افسانہ نہیں ہے۔ اس کو پہیلی یا معمہ کہا جا سکتا ہے۔”
(صفحہ35) نثری اصناف بالخصوص افسانوی ادب سے نئی نسل کی دوری پر ان کے خیالات ملاحظہ کیجیے: ”بدقسمتی سے ہمارے یہاں افسانے میں نئی نسل پیدا ہی نہیں ہو سکی۔ اب اس کے جو بھی اسباب ہوں، ہمارے یہاں تو بحث ترقی پسند ادب، جدید ادب اور مابعد جدید ادب میں الجھ کر رہ گئی۔ 1980 کے بعد لکھنے والوں نے خود کو مابعد جددیت کا علمبردار کہنا شروع کر دیا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ 1980 کے بعد لکھنے والے کچھ افسانہ نگاروں نے قلم کے وقار کو باقی رکھا ہے۔ اس میں مشرف عالم ذوقی اور صغیر رحمانی وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔”
(ایضاً) معاشرے کی تعمیر و ترقی میں صحافی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ وہ ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا سے بے نیاز ہو کر اپنے مشن میں لگا رہتا ہے۔لیکن افسوس کہ اس کے مرنے کے بعد چند تعزیتی بیانات دے کر ہم اس کی خدمات کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ البتہ شعرا و ادبا کے معاملہ میں ہمارا شعور کسی حد تک بیدار ہے۔ اشرف استھانوی نے اس کتاب کے توسط سے فوت شدہ صحافیوں کو یاد کرنے اور ان کی تحریروں کو زندہ رکھنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کی اس کوشش کی نہ صرف یہ کہ ستائش کرنی چاہیے بلکہ رضوان احمد جیسے بے شمار صحافی جنھیں زمانہ فراموش کرتا جا رہاہے، ان کی شخصیت اور خدمات پر بھی اس طرح کی کتابیں سامنے آنی چاہئیں۔ 248 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو آفتاب بک ڈبو، پٹنہ، بنگال لا ہائوس، اشکوک راج پتھ ، پٹنہ اور دیگر بُک اسٹال سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کتاب کی قیمت 210 روپے ہے۔ مرتب سے ان کے موبائل نمبر 9431221357 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔