انقرہ (اصل میڈیا ڈیسک) ترکی کے وزیر دفاع خلوصی آکار نے ایک بیان میں شمالی اوقیانوس کے عسکری اتحاد ‘نیٹو’ پر سخت تنقید کی ہے اور الزام عاید کیا ہے کہ نیٹو نے ترکی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔
جمعہ کے روز ترکی کے ایک ٹی وی چینل پر نشر کردہ ایک بیان میں وزیر دفاع آکار نے کہا کہ گذشتہ ہفتے لندن میں ہونے والے نیٹو کے سربراہ اجلاس میں اتحاد کے ممبران کسی حتمی سمجھوتے تک نہیں پہنچے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نیٹو نے اپنے اتحادی ترکی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تنہا چھوڑ دیا ہے۔
خیال رہے کہ روز ترکی نے نیٹواور یورپی ملکوں کو خبردار کیا تھا کہ اگر وہ بالٹک ریاستوں اور پولینڈ کے حوالے سے انقرہ سے تعاون چاہتے ہیں تو انہیں شمالی شام میں ترکی کی فوجی کارروائی کی حمایت کرنا ہوگی۔ ترکی کے اس طرز عمل کو بعض یورپی ممالک نے بلیک میلنگ قرار دیا تھا۔
خلوصی آکار نے این ٹی وی کو بتایا کچھ حلقوں کے لیے یہ سمجھنا غیر منطقی ہے کہ ہم اپنی قومی سلامتی کے دفاع میں جو اقدامات اٹھا رہے ہیں انہیں نیٹو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیٹو سربراہ اجلاس میں کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا۔ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تنہا رہ گئے ہیں۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوآن نے گذشتہ منگل کو لندن میں نیٹو کے 70 ویں یوم تاسیس کے اجلاس سے قبل نیٹو کے منصوبوں میں رخنہ ڈالنے کی دھمکی دی تھی۔
خیال رہے کہ ترکی کی جانب سے روس سے فضائی دفاعی نظام ‘ایس 400’ کی خریداری پر انقرہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے درمیان تنائو پیدا ہوا ہے۔
مذکورہ بالا سربراہی اجلاس سے قبل ، نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ نے گذشتہ منگل کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نیٹو روس کو دشمن نہیں مانتا، لیکن پولینڈ یا بالٹک ریاستوں کے خلاف شروع ہونے والی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے گا۔
اسٹولٹن برگ نے پولینڈ کے اخبار “ریگیوس پولاٹا” کو بتایا کہ “پولینڈ اور بالٹک ممالک میں نیٹو افواج کی موجودگی کے ساتھ ہم روس کو ایک سخت پیغام بھیجتے ہیں۔ اگر پولینڈ یا بالٹک ریاستوں میں سے کسی پرکوئی حملہ ہوا تو پورا اتحاد اس کا جواب دے گا۔