نیٹو کی سترویں سالگرہ کا جشن اور اس اتحاد میں پھیلتی دراڑیں

Donald Trump NATO Conference

Donald Trump NATO Conference

واشنگٹن (جیوڈیسک) مغربی دفاعی اتحاد کی سترویں سالگرہ کے موقع پر اتحادیوں میں بڑھتے ہوئے فاصلے نمایاں دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکا نے روس سے ہتھیار خریدنے کے معاملے پر ترکی اور کم دفاعی بجٹ کے معاملے پر جرمنی پر شدید تنقید کی۔

انتیس ممالک پر مبنی مغربی دفاعی اتحاد کے وزرائے خارجہ نیٹو کے ستر برس مکمل ہونے پر واشنگٹن میں ملاقات کر رہے ہیں۔ اتحادی ممالک کے مذاکرات شروع ہونے سے قبل ہی نیٹو کے ارکان میں بڑھتی ہوئی خلیج سترہویں سالگرہ کے جشن کے ماحول کو ’بد نما‘ کرتی دکھائی دے رہی ہے۔

امریکا کے نائب صدر مائیک پینس نے جرمنی پر نیٹو کے لیے ناکافی دفاعی بجٹ اور ترکی پر روس سے ہتھیار خریدنے کے معاملے پر شدید تنقید کی۔ ایک تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’جرمنی کو مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر ہمارے اتحادی روس پر اپنا انحصار بڑھاتے رہیں گے تو ہم مغرب کے دفاع کی یقین دہانی نہیں کرا سکتے۔‘‘

صدر ٹرمپ بھی اس حوالے سے جرمنی پر تنقید کرتے رہے ہیں اور مائیک پینس نے صدر ٹرمپ ہی کے الزامات دھراتے ہوئے کہا، ’’یہ بات بالکل ناقابل قبول ہے کہ یورپ کی سب سے بڑی معیشت روسی جارحیت کے خطرے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی اور نیٹو اتحادیوں کے مشترکہ دفاع سے غافل رہے۔‘‘

مغربی دفاعی اتحاد کے سیکریٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے امریکی کانگریس سے خطاب میں افغانستان، روس کے ساتھ ’نئی سرد جنگ‘ کے خطرے اور ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہونے جیسے مسائل پر گفتگو کی۔

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ستر برس مکمل ہونے کے موقع پر ادارے کے سیکریٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے امریکی کانگریس سے ایک غیر معمولی خطاب کیا۔ اسٹولٹن برگ نے اس خطاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اتحادیوں پر دفاعی بجٹ میں اضافے کی پالیسی کو سراہا لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے صدر ٹرمپ کی افغانستان سے متعلق نئی پالیسی پر بھی شدید تنقید کی۔

ستر برس قبل نیٹو دفاعی اتحاد کی بنیاد بھی واشنگٹن ہی میں رکھی گئی تھی۔ گزشتہ روز صدر ٹرمپ نے افغانستان میں قریب دو دہائیوں سے جاری جنگ کو ’احمقانہ‘ قرار دیتے ہوئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی کو درست قرار دیا تھا۔ اسٹولٹن برگ نے کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان میں طالبان کے دور اقتدار کے دوران وہاں روا رکھے جانے والے ’ظالمانہ‘ طرز عمل اور نائن الیون کے ذمہ دار دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے مہیا کرنے جیسے اقدامات کا تذکرہ کیا۔

نیٹو کے سکریٹری جنرل کا یہ بھی کہنا تھا کہ مغربی دفاعی اتحاد افغان جنگ میں ایک ساتھ شمولیت اختیار کی تھی اور وقت آنے پر انہیں ایک ساتھ ہی افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کے اتحادیوں کی مشاورت کے بغیر شام سے فوجی انخلا کے فیصلے پر بھی بلواسطہ تنقید کی۔

نیٹو کے قیام سے اب تک مغربی دفاعی اتحاد روس کو اپنا اولیں دشمن سمجھتا اور قرار دیتا چلا آ رہا ہے۔

اسٹولٹن برگ نے اپنے خطاب میں روس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم ہتھیاروں کی نئی دوڑ نہیں چاہتے۔ ہم ایک نئی سرد جنگ کی شروعات بھی نہیں چاہتے۔ لیکن ہمیں کم عقلی کا مظاہرہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ ہم روس کو تنہا نہیں کرنا چاہتے اور ماسکو کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔‘‘ تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ آئی این ایف معاہدے کے خاتمے کے بعد ماسکو پھر سے خطرہ بن کر ابھر رہا ہے۔