کراچی (جیوڈیسک) کراچی بد امنی کیس کی سماعت کے دوران ڈی جی رینجرز نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں نیٹو کنٹینرز سابق وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ کی نگرانی میں کھولے گئے۔ یہ ہی اسلحہ شہر میں قتل و غارت کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں کراچی بد امنی کیس کی سماعت ہوئی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ڈی جی رینجرز سے استفسار کیا کہ اسلحہ آسمان سے نہیں گرتا، بتائیں کراچی میں اسلحہ کہاں سے آ رہا ہے؟۔
ڈی جی رینجرز نے بتایا نیٹو کنٹینرز سابق وفاقی وزیر برائے پورٹ اینڈ شپنگ کی نگرانی میں کھولے گئے۔ یہ ہی اسلحہ شہر میں قتل و غارت کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ ڈی جی رینجرز نے بتایا کہ کراچی میں نیٹو، امریکن اور روسی اسلحہ استعمال ہو رہا ہے۔ کنٹینرز کے ذریعے کراچی بندرگاہ سے نکلنے والا اسلحہ قبائلی علاقوں میں جاتا ہے اور وہاں سے کراچی واپس آ جاتا ہے۔ اسلحہ کی سمگلنگ کے لئے حب ریور روڈ، سپر ہائی وے اور نیشنل ہائی وے استعمال کئے جاتے ہیں۔
وزیرستان میں جو کنٹینرز پکڑے گئے ان میں سے امریکی فوج کا استعمال شدہ اسلحہ نکلا۔ چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری سندھ سے سوال کیا کہ کیا کراچی میں سی سی ٹی وی کیمرے لگ چکے ہیں۔ چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ شہر میں16 سو کیمرے لگنے ہیں۔ چیف جسٹس نے چیف کلکٹر کسٹم سے کہا کہ آپ کو پتہ ہونا چاہئیے کہ ہنڈی کا سارا پیسہ کراچی سے جا رہا ہے۔
بتائیں کتنے ہنڈی والے پکڑے ہیں۔ آپ کی موجودگی میں ڈالر 104 روپے کا ہوگیا ہے۔ بینکوں سے اور چیکس کے ذریعے بھی بھتہ لیا جا رہا ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے کہ آپ خود ہی ملک کے دشمن بن گئے ہیں۔ باہر سے کسی کو بلانے کی ضرورت نہیں۔ ملک کا چوری ہونے والا پیسہ جرائم میں استعمال ہو رہا ہے۔ یہ منی لانڈرنگ کے قصے بھی بلیک منی کے ہی ہیں۔ کیس کی سماعت 18 ستمبر تک ملتوی کر دی گئی۔