ماسکو (اصل میڈیا ڈیسک) روس نے سیکورٹی امور پر نیٹو سے کئی مطالبات کیے ہیں، جس میں اس اتحاد میں توسیع نہ کرنے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ روس اس پر فوری بات چیت چاہتا ہے، تاہم اس بات کا امکان کم ہے کہ نیٹو ماسکو کی فہرست تسلیم کر لے گا۔
روس نے یوکرائن کی سرحد پر کشیدگی کم کرنے کے لیے 17 دسمبر جمعے کے روز امریکا اور نیٹو کے سامنے کئی مطالبات پیش کیے ہیں اور کہا کہ تعلقات کی بحالی کے لیے ان پر عمل ضروری ہے۔
یہ نئی پیش رفت ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب یوکرائن پر فوجی حملے اور بیلاروس کے ساتھ یورپی یونین کی بیرونی سرحد پر جنگی سرگرمیوں کے خدشات کے سبب روس اور مغربی ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مطالبات سے متعلق روسی دستاویزات اس ہفتے کے اوائل میں امریکا اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو پیش کی گئی تھیں۔ عالمی سطح کی سفارت کاری میں معاہدوں پر اتفاق سے پہلے، بات چیت کے دوران ہی، ان کی اشاعت ایک غیر معمولی اقدام ہے۔
روس کیا چاہتا ہے؟ روس مشرقی یورپ، بشمول یوکرائن، کوہ قاف اور وسطی ایشیا میں نیٹو کی فوجی سرگرمیوں کا خاتمہ چاہتا ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ نیٹو کی رکنیت میں مزید توسیع نہ کی جائے، خاص طور پر یوکرائن کو اس اتحاد میں شامل نہ کیا جائے۔
درمیانی یا کم فاصلے تک مار کرنے والے کسی بھی طرح کے میزائل اتنے قریب نہ نصب کیے جائیں کہ وہ دوسری جانب کے علاقوں کو نشانہ بنا سکیں۔
متفقہ سرحدی زون میں بیک وقت ایک سے زیادہ فوجی بریگیڈ کی کسی بھی طرح کی فوجی مشق نہ کی جائیں۔ ایک معاہدہ کیا جائے کہ جس کی رو سے فریقین ایک دوسرے کو حریف نہ سمجھیں اور تمام تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کا عہد کیا جائے۔
روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ روس اور مغرب کو تعلقات کی تعمیر نو کے لیے نئے سرے سے آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، ”حالیہ برسوں کے دوران امریکا اور نیٹو کی طرف سے سلامتی کی صورتحال کو جارحانہ انداز میں بڑھانے کے لیے جو لائحہ عمل اختیار کیا گیا ہے وہ انتہائی خطرناک اور قطعی طور پر ناقابل قبول ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”واشنگٹن اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو ہمارے ملک کے خلاف جاری معاندانہ کارروائیاں، بشمول غیر طے شدہ مشقیں… اور بحری جہازوں اور طیاروں کی مشقوں کو فوری طور پر روکنا چاہیے۔ انہیں یوکرائن کی سرزمین پر بھی اپنی عسکری ترقیاتی سرگرمیوں کو روکنے کی ضرورت ہے۔”
ریابکوف کا کہنا تھا کہ روس اس سلسلے میں اٹھارہ دسمبر ہفتے کے روز سے فوری طور پر مذاکرات شروع کرنے پر آمادہ ہے، اور بات چیت کے لیے جنیوا کو ایک مقام کے طور پر تجویز کرتا ہے۔
نیٹو کا رد عمل کیا ہے؟ امریکا نے واضح کر دیا ہے کہ جہاں تک نیٹو کی رکنیت کا سوال ہے تو اس میں روس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں یورپ سے صلاح و مشورے کے بغیر مذاکرات نہیں کرے گا۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری جین ساکی نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ اس سلسلے میں، ”ہمارے یورپی اتحادیوں اور شراکت داروں کے بغیر یورپی سلامتی پر کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔ ہم ان کلیدی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے جن پر یورپی سلامتی کی بنیاد رکھی گئی ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ اس کے تحت، ”تمام ممالک کو بیرونی مداخلت کے بغیر اپنا مستقبل طے کرنے اور خارجہ پالیسی کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔”
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے’ کونسل آن فارن ریلیشنز ‘کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا مناسب فارمیٹ کے تحت روس کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔
نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس ا سٹولٹن برگ کا کہنا تھا کہ نیٹو اتحاد کو دستاویزات کا مسودہ موصول ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماسکو کے ساتھ کسی بھی بات چیت کے لیے، ”روس کو اپنے اقدامات کے بارے میں نیٹو کے خدشات کو دور کرنے کی بھی ضرورت ہوگی۔ اسے یورپی سلامتی کے بنیادی اصولوں اور دستاویزات پر مبنی ہونا چاہیے اور یوکرائن جیسے نیٹو کے یورپی شراکت داروں ساتھ مشاورت سے ہونا چاہیے۔”
انہوں نے کہا کہ نیٹو کے 30 رکن ممالک نے، ”واضح کر دیا ہے کہ اگر روس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے تو ہم اعتماد سازی کے اقدامات کو مضبوط بنانے کے لیے کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔”
نیٹو کے سفارت کاروں نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ ماسکو نیٹو اتحاد میں مزید توسیع پر ویٹو کا اختیار نہیں رکھتا ہے۔ پولینڈ کے وزارت خارجہ کی ترجمان لوکاس جیسینا نے کہا، ”روس نیٹو کا رکن نہیں ہے اور اسے نیٹو سے متعلق معاملات پر فیصلہ کرنے کا بھی حق نہیں ہے۔”