تحریر : سید توقیر حسین نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ نیٹو اور اتحادی فوج کو بڑے پیمانے پر افغانستان میں رکھیں گے۔ علاقائی موجودگی کیساتھ ہم افغان فورسز کو تربیت اور معاونت فراہم کرینگے۔ برسلز کے اجلاس میں نیٹو سیکرٹری نے کہا کہ وارسا سربراہی اجلاس کے دوران افغانستان میں فوجوں کی موجودگی اور تعداد کے حوالے سے فیصلے کئے جائینگے اور سائبر دفاعی میکانزم کو طاقتور بنایا جائیگا۔وارسا میں نیٹو کے 8 اور 9 جولائی کو ہونیوالے اجلاس میں اہم فیصلے متوقع ہیں۔ برطانوی وزیر دفاع مائیکل فیلن کا کہنا ہے کہ ان کو امریکی وزیر دفاع آشٹن کارٹر نے بتایا کہ امریکہ افغانستان میں فوج کی تعداد کا جائزہ لے رہا ہے’ اس کا فیصلہ بھی وارسا کے اجلاس میں ہوگا۔ برطانوی وزیر دفاع نے اپنے امریکی ہم منصب کی گفتگو سے اندازہ لگایا کہ امریکہ افغانستان میں فوج کی تعداد میں مزید کمی کا جائزہ لے رہا ہے جبکہ نیٹو سیکرٹری جنرل اسکے برعکس افغانستان میں بڑے پیمانے پر فوج رکھنے کا اعلان کررہے ہیں۔ اس اضافے کا مقصد انکے نزدیک افغان فورسز کو تربیت دینا اور انکی معاونت کرنا ہے۔ امریکہ کی طرف سے افغانستان سے بڑی تعداد میں فوج کی واپسی کے بعد دس ہزار فوجیوں کو افغانستان میں ٹرینر کے طور پر رکھا گیا’ تربیت کے مقصد کیلئے یہ ایک بڑی تعداد ہے’ اس میں اضافے کی ضرورت نہیں۔
افغانستان میں اب افغان فوج اور پولیس کی تربیت کیلئے جو بھی اتحادی فوجی موجود ہیں’ انکی واپسی کیلئے امریکہ کی طرف سے ہمیشہ ٹائم فریم دینے سے انکار کیا گیا ہے تاہم افغان حکومت اور امریکہ کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق 2024ء تک یہ فوجیں امریکہ میں رہیں گی جبکہ مذکورہ معاہدے میں توسیع ہو سکتی ہے۔ اب افغانستان میں امریکی کمانڈر کی طرف سے نیا موقف سامنے آیا ہے۔ افغانستان میں امریکی فوج کے سینئر کمانڈر جنرل اسکیپ ڈیویس نے کابل میں کہا تھا کہ امریکہ دوہزار بیس تک افغانستان میں امن قائم کرنے کا پروگرام رکھتا ہے۔ اس پروگرام کا بجٹ حاصل کرنے کیلئے امریکہ کو اپنے اتحادیوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ اس منصوبے کیمطابق امریکہ اپنے اتحادیوں کی مدد سے کم از کم دوہزار بیس تک سالانہ پانچ ارب ڈالر جمع کر گا تا کہ افغانستان میں قیام امن اور افغان سکیورٹی فورسز کی ٹریننگ پر خرچ کرسکے۔ جنرل اسکیپ نے بھی کہا کہ یہ طے پایا ہے’ طالبان کا مقابلہ کرکے افغانستان میں امن قائم کرنے کے مسئلے کا جائزہ نیٹو کے وارسا اجلاس میں لیا جائیگا۔ جنرل اسکیپ ڈیویس کیمطابق پنٹاگون کے نئے منصوبے میں افغانستان کی فوج اور پولیس فورس میں افراد کی تعداد بڑھا کرتین لاکھ باون ہزارکردی جائیگی۔
Afghan armyÊ
امریکہ نے افغان فوج کی دس بارہ سال تربیت کی مگر اسکے وہ نتائج حاصل نہ ہو سکے جو امریکہ اسکے اتحادی اور افغانستان میں اسکی کٹھ پتلی حکومت چاہتی تھی۔ اس فوج کی کارکردگی کرائے کے فوجیوں سے بھی بری نکلی۔ ان میں سے کسی کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ کب بھگوڑا ہو جائے اور طالبان کے ساتھ جا ملے۔ طالبان ملیشیا ایک عرصے سے افغانستان کی مرکزی حکومت اور نیٹو سے برسر پیکار ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ داعش کا افغانستان میں معرض وجود میں ا?نا امریکہ اور نیٹو کے حکام کیلئے شدید تشویش کا باعث بن چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے سولہ برسوں میں امریکہ اور نیٹو کی افواج نے امن قائم کرنے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی بلکہ بعض مواقع پر حالات مزید بگڑے ہیں۔افغانستان میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی فوجی موجودگی سے انکے فوجیوں پر حملوں، دہشتگردی میں اضافہ اور افغان عوام کے قتل عام اور تباہی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اسکے علاوہ افغانستان میں نیٹو اور امریکہ کے فوجیوں کی موجودگی میں ہی منشیات کی پیداوار میں چالیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کے فوجیوں کی موجودگی کا ایک افسوسناک نتیجہ انکی طرف سے افغانستان کے مختلف علاقوں پر زمینی اور فضائی حملے ہیں جو طالبان اور داعش کے مقابلے کے بہانے کئے جاتے ہیں۔ ان حملوں میں افغان قوم کو بھاری جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔ اسکی ایک مثال شہر قندوز میں امریکی طیاروں کا ایک ہسپتال پر حملہ تھا جس میں تیس عام شہری جاں بحق اور بیسیوں زخمی ہوئے تھے۔ اس ہسپتال کو ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم نے بنایا تھا۔
افغانستان میں طالبان کی طاقت بڑھ رہی ہے اور اسکے مقبوضات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں صوبہ نمروز میں ایک حملے میں 9افغان فوجی ہلاک اور5 زخمی ہوگئے۔حکام نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہاہے کہ طالبان کے ایک گروپ نے نمروز میں ایک سکیورٹی چیک پوسٹ پرحملہ کردیا، اس حملے میں 9افغان فوجی ہلاک اور5زخمی ہوگئے۔ طالبان نے جنوبی صوبہ ارزگان کے ایک اہم ضلع پر قبضہ کرلیا ہے۔صوبائی کونسل کے سربراہ عبدالکریم خادم زئی نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا طالبان نے چارچینوضلع کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ افغان سرزمین سے آخری امریکی فوجی کے انخلائ سے قبل ہی افغانستان پھر طالبان کے زیرتسلط ہوگا۔ امریکہ اور افغان انتظامیہ کیلئے یہ صورتحال ناقابل برداشت ہوگی اس لئے افغانستان میں امریکی فوج کے انخلائ کا معروضی حالات میں کوئی امکان نہیں ہے اور افغانستان میں طالبان کا زور توڑنے کیلئے امریکہ افغانستان میں اپنی طاقت میں اضافے پر غور کر سکتا ہے۔
United States
پاکستان نے افغانستان کی تباہی اور بربادی کیلئے امریکہ کا اپنی حیثیت سے بڑھ کر ساتھ دیا مگر امریکہ کی اس جنگ میں پاکستان کو دس ہزار پاک فوج کے سپوتوں کی شہادت کا زخم سہنا پڑا۔ پچاس ہزار سے زائد دیگر پاکستانی شہری جاں بحق ہوئے اور معیشت کو سو ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا۔ سب سے بڑھ کر پاکستان خود بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ یہ سب کچھ پاکستان کو امریکہ کی جنگ میں ساتھ دینے کی پاداش میں سہنا پڑا۔ امریکہ کو اس پر پاکستان کا ممنون اور مددگار ہونا چاہیے تھا’ اس نے امداد کے نام پر پاکستان کو مختلف اوقات میں 20 ارب ڈالر فراہم کئے۔ ان میں سے زیادہ تر حکمرانوں کے اکائوٹنس میں چلے گئے۔ یہ امداد نقصان کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھی۔ امریکہ جنگ کے دوران پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی قرار دیتا رہا مگر اس نے افغانستان سے جزوی انخلاء کیا تو پاکستان کی قربانیوں کو پائوں کی ٹھوکر میں رکھا اور بھارت کے ساتھ تعلقات کو عروج پر لے گیا۔ اسکے ساتھ دفاعی و تجارتی معاہدے کئے’ اس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی حمایت کی اور اب اسے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا ممبر بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ امریکہ میں موجود بھارتی لابی نے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فروخت رکوائی۔ یہاں یہ امر خوش آئند ہے کہ امریکہ میں بھارتی لابی کی خواہش اور اوباما انتظامیہ کی کوششوں کے باوجود امریکی سینٹ نے گزشتہ روز بھارت کو بطور عالمی سٹرٹیجک اور دفاعی پارٹنر تسلیم کرنے کیلئے ترمیمی بل مسترد کر دیا۔ یہ بل ری پبلکن سینیٹر جان مکین نے پیش کیا تھا۔ سینیٹر مکین نے کہا ہے کہ وہ یہ بل مسترد ہونے پر مایوس ہیں۔ مکین بل مسترد ہونے پر مایوس ہی نہیں مشتعل بھی ہوئے اور سینٹ پر یہ کہتے ہوئے چڑھائی کردی سینٹ بہت سے معاملات جو ہماری قومی سلامتی کیلئے انتہائی نازک ہیں ان پر بحث کرنے کے قابل نہیں ہے۔
اب جبکہ امریکہ کا افغانستان میں فوج کی تعداد میں اضافہ نوشتہ دیوار نظر آتا ہے’ امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت محسوس ہوگی۔ سرتاج عزیز کہہ چکے ہیں کہ امریکہ اپنے مقصد کی بجاآوری کیلئے گلے لگاتا ہے اور مطلب نکل جانے پر آنکھیں پھیر لیتا ہے۔ اب امریکہ پر اعتماد اور اعتبار کرنے کی ضرورت نہیں۔ مومن ایک سوراخ سے ایک بار ہی ڈسا جاتا ہے۔ اب امریکہ کو کہہ دیا جائے کہ وہ افغانستان میں اپنی کارروائی کیلئے بھارت سے رجوع کرے۔ پاکستان کی طرف سے سخت موقف اختیار کیا گیا تو نیٹو سپلائی کی بحالی کی طرح امریکہ ایک بار پھر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگا’ اسکی بھارت سے قربتیں بھی کم ہو جائیں گی اور بھارت کی طرف سے امریکہ کا دفاعی پارٹنر بننے کا خواب بھی چکناچور ہو جائیگا۔