فرانس (اصل میڈیا ڈیسک) فرانسیسی صدر ماکروں نے اپنے اس متنازعہ بیان کا دفاع کیا ہے، جس میں انہوں نے نیٹو کو ’ذہنی طور پر مردہ‘ قرار دے دیا تھا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو اس وقت کئی حل طلب امور کا سامنا ہے اور اس کی ایک سمٹ اگلے ہفتے ہو رہی ہے۔
انتیس ممالک پر مشتمل مغربی دفاعی اتحاد کے سربراہان مملکت و حکومت کا ایک اجلاس چار دسمبر کو برطانوی دارالحکومت لندن میں ہو گا۔ اس اجلاس سے قبل اس تنظیم کو جو بڑے حل طلب مسائل درپیش ہیں، ان میں یورپ میں امن سے متعلق پیدا ہونے والے سوالات، روس اور ترکی کے ساتھ تعلقات اور افریقہ میں ساحل کے علاقے میں اس بلاک کے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف عسکری اقدامات سرفہرست ہیں۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے مطابق نیٹو کو عالمی سطح پر فی زمانہ جس طرح کے حالات درپیش ہیں، ان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ بلاک ‘ذہنی طور پر مردہ‘ ہو چکا ہے۔
ماکروں نے پہلی بار اپنا اس تنظیم کے اندر بہت متنازعہ ہو جانے والا یہ بیان اسی مہینے دیا تھا اور اس کے بعد امریکا میں واشنگٹن اور کئی یورپی ممالک کے دارالحکومتوں میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی تھی۔
جمعرات اٹھائیس نومبر کو پیرس میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایمانوئل ماکروں نے نیٹو کی ‘دماغی موت‘ سے متعلق اپنے اس بیان کا بھرپور دفاع کیا۔
انہوں نے کہا کہ ان کا یہ موقف کوئی غلطی نہیں تھا بلکہ یہ اس اتحاد کے رکن ممالک کو ‘جگانے کی ایک فائدہ مند‘ کوشش تھی۔
فرانسیسی صدر کے بقول اس وقت اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ نیٹو میں داخلی سطح پر زیادہ اتحاد اور رابطہ کاری کی جائے لیکن ساتھ ہی یورپ کو یہ بھی کرنا ہو گا کہ وہ اپنی سلامتی سے متعلق اب تک کے مقابلے میں اپنے کندھوں پر زیادہ ذمے داری لے۔
صدر ماکروں نے نیٹو کی عملی افادیت اور اس کے فیصلوں پر اپنے عدم اطمینان کی ایک مثال دیتے ہوئے اسٹولٹن برگ کی موجودگی میں کہا، ”نیٹو کے گزشتہ دو سربراہی اجلاس مکمل طور پر اس بحث کی نذر ہو گئے کہ اس اتحاد کی وجہ سے امریکا پر پڑنے والے مالیاتی بوجھ کو کم کیسے کیا جائے۔‘‘
ماکروں کے بقول یہی دونوں نیٹو سربراہی اجلاس اس بات کا ثبوت بھی تھے کہ دفاعی بجٹ پر بحث اور اس اتحاد کو درپیش حقیقی چیلنجز کے مابین ‘کتنی شدید بےربطگی‘ تھی۔
فرانسیسی صدر نے نیٹو کے ایک رکن ملک کے سربراہ مملکت کے طور پر امریکی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے پر بھی شدید تنقید کی تھی، جس کے تحت شمالی شام سے امریکی فوجی دستے یکدم نکال لیے گئے تھے۔ امریکی فوجیوں کی وہاں سے اس واپسی کے بعد ہی ترکی نے وہاں کرد ملیشیا وائی پی جی کے خلاف وسیع تر فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔
ماکروں اس پیش رفت پر اس وجہ سے بھی نالاں تھے کہ ان کے مطابق امریکا اور ترکی دونوں ہی نیٹو کے رکن ممالک ہیں مگر خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں ان دونوں اتحادی ممالک کے متضاد سمتوں میں جانے والے عسکری فیصلوں کا آپس میں کوئی ربط نہیں تھا۔