امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا کے افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے اعلان کے بعد ہی نیٹو ممالک نے بھی اپنی افواج کے انخلا پر ایک ساتھ مل کر کام کرنے کا اعلان کیا ہے۔
نیٹو کے اتحادی ممالک نے بھی 14 اپریل بدھ کے روز ہونے والی اپنی ایک اہم میٹنگ میں افغانستان میں اپنا آپریشن ختم کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اس اعلان کے تناظر میں کیا گیا ہے جس میں امریکی فوج کو آئندہ 11 ستمبر تک افغانستان سے نکال لینے کی بات کہی گئی تھی۔
امریکا نے سن 2001 میں گیارہ ستمبر کو نیو یارک کے ٹوئن ٹاورز پر جہادی تنظیم القاعدہ کے حملے کے بعد افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں نیٹو ممالک نے بھی امریکا کا ساتھ دیا تھا اور اپنی افواج افغانستان میں تعینات کی تھیں۔
برسلز میں ایک کانفرنس کے دوران نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹلن برگ نے اعلان کیا، ”نیٹو کے اتحادیوں نے منظم، مربوط اور سوچ سمجھ کر یکم مئی سے ‘ریزولوٹ سپورٹ فورسز’ کی واپسی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم افغانستان کو اپنی حمایت جاری رکھیں گے، ہمارے رشتوں میں یہ ایک نئے باب کا آغاز ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”ہم افغانستان میں ایک ساتھ گئے تھے۔ ہم نے ایک ساتھ مل کر وہاں اپنا انداز اور طریقہ اختیارکیا اور وہاں سے نکلنے میں بھی ہم ساتھ ہیں۔”
افغانستان سے افواج کے انخلا کے معاملے پر بات چیت کے لیے بدھ کے روز اتحادی ممالک کے دفاعی اور خارجی امور کی وزرا کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں اس مسئلے پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ اس کے بعد نیٹو کے سکریٹری جنرل نے افغانستان کے تعلق سے یہ بیان جاری کیا۔
اس بیان کے فوری بعد امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے کہا کہ افغانستان میں، ” ہمارے راستے کے ہر قدم پر جس طرح نیٹو نے ہمارے ساتھ یکجہتی کا مظاہر کیا ہے اسے امریکا کبھی نہیں بھول سکتا۔”
افغانستان میں نیٹو اتحاد کے تقریبا ًدس ہزار فوجی اب بھی موجود ہیں اور اس اتحاد کا کہنا ہے کہ اگر طالبان نے اس انخلا کے عمل کے دوران اس کے فورسز پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو نیٹو فورسز کی جانب سے اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔
اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس سے اپنے خطاب کے دوران افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے اپنے منصوبے کا باضابطہ اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا آغاز یکم مئی سے ہوگا اور اختتام 11 ستمبر کو ہو جائیگا۔
ان کا کہنا تھا، ”یہ امریکا کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کا وقت ہے اور امریکا اس انخلا کے عمل میں جلد بازی سے کام نہیں لے گا۔”
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے امریکی صدر جو بائیڈن سے بدھ کے روز فون پر بات چیت کے دوران افغانستان سے فورسز کے انخلا کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔
جرمن حکومت کے ترجمان اشٹیفان زائبرٹ نے اس فون کال کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ”چانسلر اور صدر نے افغانستان کی صورت حال کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ اس بارے میں بھی بات چیت کی کہ نیٹو اتحادی فورسز کے انخلا کی ابتدا کیسے کر سکتا ہے۔”
ان کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے مستقبل میں بھی افغانستان کے تئیں پالیسی کے حوالے سے آپسی تعاون برقرار رکھنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
افغان صدر اشرف غنی نے بھی بدھ کے روز فوجی انخلا کے حوالے امریکی صدر جو بائیڈن سے فون پر بات چیت کی۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس گفتگو کے بارے میں کہا، ”افغانستان امریکا کے فیصلے کا احترام کرتا ہے اور آسا ن انخلاء کو یقینی بنانے کے لیے ہم اپنے امریکی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ افغانستان کی قابل فخر سکیورٹی اور دفاعی فورسز اپنی عوام اور ملک کے دفاع کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔”