فطرت

Justice

Justice

تحریر : شیخ توصیف حسین
سانپ کی پرورش خواہ آپ کتنے ہی اچھے طریقے سے کیوں نہ کر لیں لیکن وہ فطرت کے مطا بق ایک نہ ایک دن وہ آپ کوضرور ڈسے گا بس یہی کیفیت کم ظرف انسانوں کی ہے خواہ وہ کتنے ہی بڑے عہدے پر فائز کیوں نہ ہو جائے وہ اپنی فطرت کے مطابق ملک و قوم کے ساتھ ساتھ انسانیت کی تذلیل کر نے میں ذرہ بھر بھی دریغ نہیں کریں گے تاریخ گواہ ہے کہ 1947سے قبل انگریز اپنے دورحکومت میں کسی بھی کم ظرف شخص کو اعلی عہدے پر فائز نہیں کرتے تھے چونکہ وہ یہ بخوبی سمجھتے تھے کہ کم ظرف شخص اپنی فطرت کے مطا بق لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر کے اُن کیلئے پریشانی اور بد نامی کا سبب بنے گا ہاں البتہ وہ ان کم ظرف انسانوں کو محض اپنے ساتھ وفاداری اور اپنوں کے ساتھ غداری کے عوض جاگیریں دیتے رہے لیکن ان کم ظرف انسانوں پر ہمیشہ عدم اعتماد کرتے رہے بس اسی سوچ کے مطا بق انگریز قوم آج تک پوری دنیا پر حکومت کر رہی ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ دنوں امریکہ کا موجودہ صدر جو ہمیشہ مسلمان قوم کے خون کا پیا سا رہا ہے سعودی عرب میں آیا تو وہاں پر سعودی حاکمین کے علاوہ دیگر مسلم ممالکوں کے حاکمین نے اُ س کا پر زور استقبال کیا اور جاتے ہوئے اُسے لا تعداد قیمتی تحائف سے نوازا بہر حال یہ ایک علیحدہ ایشو ہے ہاں تو میں بات کر رہا تھا کم ظرف انسانوں کی کہ جہنوں نے 1947 کے بعداپنی فطرت کے مطا بق اس ملک وقوم کو اس بے دردی کے ساتھ لوٹنے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے کہ آج یہ ملک بھکاری جبکہ یہاں کی عوام لا تعداد پریشانیوں میں مبتلا ہو کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گئی ہے۔

یہی کافی نہیں اس ملک کی نوے پرسنٹ مظلوم عوام ان کم ظرف ناسوروں سے جو اپنے آ پ کو فرش کے خدا سمجھتے ہیں سے عدل و انصاف کی توقع رکھنا بس ایک دیوانے کا خواب سمجھتی ہے در حقیقت تو یہ ہے کہ ان کم ظرف انسانوں کی وجہ سے ہر طرف مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کسی ایک ملک کا قانون تھا کہ اگر اس ملک کا بادشاہ وفات پا جا تا تو اُس ملک کی عوام ایک مخصوص قسم کا پرندہ ہوا میں اُڑا د یتی پرندی جس کے سر پر بیٹھ جاتا عوام اُسے اپنا بادشاہ تسلیم کر لیتی ایک دفعہ بادشاہ کی وفات کے بعد عوام نے وہی مخصوص پرندہ ہو ا میں اُڑا دیا پرندہ اُڑتے ہوئے ایک گداگر کے سر پر آ کر بیٹھ گیا جسے عوام نے اپنے بنائے ہوئے قانون کے ہاتھوں مجبور ہو کر گداگر کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا بعد ازاں گداگر بادشاہ نے اپنی فطرت کے مطا بق ملک وقوم کی بہتری اور بھلائی کرنے کے بجائے لوٹ مار کر نے کے ساتھ ساتھ مختلف کھانوں کی فر مائش کر نے میں مصروف عمل ہو کر رہ گیا جس کی اطلاع پا کر دشمن ملک نے اُس کے ملک پر حملہ کر نے کیلئے فوجی دستے روانہ کر دیے جس کی بر وقت اطلاع مخبر نے گداگر بادشاہ کو کر دی لیکن گداگر بادشاہ اپنی فطرت کے مطا بق لوٹ مار اور مختلف کھانے نوش فرمانے میں مصروف عمل رہا جس کے نتیجہ میں دشمن ملک کی فوج نے حملہ کر کے ملک وقوم کو یرغمال بنا لیا جبکہ گداگر بادشاہ لوٹی ہوئی دولت کے ہمراہ راہ فرار اختیار کر گیا لیکن بعد ازاں دشمن ملک کی فوج نے لوٹی ہوئی دولت کے ہمراہ گداگر بادشاہ کو گرفتار کر کے یہ کہتے ہوئے اُس کا سر قلم کر دیا کہ کم ظرف انسان جو کسی پر رحم نہیں کرتا اُس پر رحم کر نا بیوقوف قوم کی علامت ہے۔

بالکل اسی طرح آج وطن عزیز میں لا تعداد کم ظرف اشخاص قومی و صوبائی اسمبلیوں میں وزیر اور مشیر بن کر نہ صرف از خود بلکہ اپنے منظور نظر سیکرٹریوں کی معرفت لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر کے ملک کو کنگال جبکہ عوام کو لا تعداد پریشانیوں میں مبتلا کر نے میں مصروف عمل ہیں جس کی ایک چھوٹی سی مثال موجودہ حاکمین بالخصوص چیف جسٹس آ ف پاکستان کی نظر کر رہا ہوں ہوا یوں کہ میں گزشتہ روز اپنے دفتر میں بیٹھا اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل تھا کہ اسی دوران محمد صدیق نامی شخص جو کہ پنجاب میڈیکل گیس کا جھنگ میں ڈیلر ہے میرے دفتر میں داخل ہو کر کہنے لگا کہ اس ملک کے کم ظرف مفاد پرست سیاست دان اپنے منظور نظر بیوروکریٹس آ خر کب تک لا قانو نیت کا ننگا رقص کرتے رہے گے۔

آخر کب تک اس کی ان پریشان حال باتوں کو سننے کے بعد میں نے اُس سے پو چھا کہ آ خر ماجرا کیا ہے آج تم اتنے مایوس کیوں ہو جس پر اُس نے بتایا کہ میں عرصہ تقریبا چودہ سال سے ڈی ایچ کیو ہسپتال جھنگ کے ساتھ ساتھ دیگر متعدد سرکاری ہسپتالوں کو240CFTآ کسیجن گیس بمطا بق معاہدہ فی سلنڈر 269روپے کے عوض سپلائی کر نے میں مصروف عمل رہا ہوں لیکن گزشتہ دنوں مذکورہ ہسپتالوں نے میری سپلائی کو بند کر دیا ہے جس کی وضاحت طلب کر نے کیلئے میں گزشتہ روز ڈی ایچ کیو ہسپتال جھنگ کے ارباب و بااختیار کے پاس پہنچا تو انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری ہیلتھ پنجاب نے اپنے کسی منظور نظر گیس ڈیلر سے معاہدہ کر لیا ہے کہ مذکورہ گیس جو آپ سے ہم فی سلنڈر 269روپے میں خریدتے تھے اُس سے 1750روپے فی سلنڈر خریدے ہم کیا کر سکتے ہیں ہم تو بس حکم کے غلام ہیں خواہ وہ ادویات کی خریداری میں کمیشن لیں ہسپتالوں کی تعمیر و مرمت میں کمیشن لیں آ لات کے علاوہ دیگر سامان کی خریداری میں کمیشن لیں تبادلوں اور تعنیاتی کی مد میں نذرانہ لیں یا پھر آ کسیجن گیس کی سپلائی میں اپنا کمیشن وصول کریں ہم کچھ نہیں کر سکتے ہم تو صرف حکم کے غلام ہیں یا پھر خاموش تماشائی اس سے آگے ہماری کوئی حیثیت نہیں ان کے سامنے اگر کسی نے سر اٹھانے کی کو شش کی تو یہ اتنے پاورفل ہیں اُس کا سر اپنے اُوچھے ہتھکنڈوں سے کچل دیتے ہیں جس کا واضح ثبوت ایم این اے مظفر گڑھ جمشید دستی ہے جو ایم این اے ہو نے کے باوجود ان ناسوروں کا محاسبہ کر نے میں قاصر ہے۔

حالانکہ وہ صداقت امانت اور شرافت کی ایک منہ بولتی تصویر ہے جس کی ایمانداری اور فرض شناسی کا یہ عالم ہے کہ متعدد بار ایم این اے ہو نے کے باوجود تاحال ہینڈ ٹو مائوتھ ہے درحقیقت تو یہ ہے کہ وہ سیاست دان نہیں بلکہ ایک لیڈر ہے لیڈر اپنے ملک وقو م کی بھلائی اور بہتری کیلئے سوچتا ہے جبکہ سیاست دان اپنے اور اپنے خاندان کی بہتری اور بھلائی کیلئے ہمہ وقت سوچتا ہے اس کے باوجود یہ ناسور اپنی فطرت کے مطابق اس پر آئے روز نت نئے مقدمات درج کروا کر بند سلاسل کروا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب ملک و قوم کو لوٹنے والے کم ظرف اشخاص پروٹوکول کے ساتھ کھلے عام گھوم رہے ہیں کاش ہمارے ملک کے حاکمین ان کم ظرف اشخاص کی مدد سے اپنی کرسیوں کو مضبوط کر نے کے بجائے اپنے ملک کے تمام اداروں کو مضبوط کرتے تو آج ہمارا ملک ایک مثالی ملک ہوتا لیکن افسوس کہ ہمارے ملک کے حاکمین ایسا کر نے میں ہمیشہ قاصر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں آج ملک بھر میں لوٹ مار اور ظلم و بر بریت کا بازار گرم ہے جبکہ عدل و انصاف اور احساس کا نام و نشان آ ہستہ آ ہستہ مٹ رہا ہے لہذا میں نے مذکورہ ارباب و بااختیار کی ان باتوں کو سننے کے بعد عہد کیا ہے کہ میں ان ناسوروں کے کالے کرتوتوں کو بے نقاب کر نے کی آ خری حد تک کوشش کروں گا جس کی بر وقت اطلاع صوبائی محتسب اعلی کے ایڈوائزر جھنگ کو تحریری طور پر کر دی ہے اور اب میں میڈیا جو مظلوم اور بے بس اشخاص کا آ خری سہارا ہے کے خصوصی تعاون سے ان ناسوروں کو جو ملک وقوم کے دشمن ہیں کے کالے کرتوتوں کو بے نقاب کر نے آیا ہوں۔

سپیروں نے یہ کہہ کر سانپوں کو قید کر لیا
کہ اب انسان ہی کافی ہیں انسانوں کو ڈسنے کیلئے

Sheikh Tausayev Hussein

Sheikh Tausayev Hussein

تحریر : شیخ توصیف حسین