داناؤن کا کہنا ہے کہ غصہ آتا اکیلا ہے اور جاتے ہوئے بہت کچھ ساتھ لے جاتا ہے يہ ایک ایسی کیفیت ہے جس کے بعد انسان پہلے تو اپنے ہوش و ہواس کھو بیٹھتا ہے جس کے بعد اسکی تمام تر حسیات جواب دے جاتی ہین وہ اندھا اور بہرہ ہو جاتا ہے سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتں ناکارہ ہو جاتی ہیں اس کے بعد وہ جو کچھ کرتا ہے وہ کبھی اچھائی پر مبنی نہین ہو سکتا وہ جو کرے گا غلط کرے گا اور غلط کام یا بات کرنے کے بعد جب يہ غبار اس کے ذہن سے چھٹتا ہے تو وہ آھستہ آھستہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس سے کس درجے کی غلطی سر زد ہو گئی
لیکن وقت گزرنے کے بعد اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے کہ اب پچھتائے کيا ہوت جب چڑيا ں چگ گئیں کھيت سب بے سود اور بيکار ہوتا ہے کیونکہ کہتے ہين کہ کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلی بات واپس نہین آ سکتی اس کس اس رویے نے دوسرون کو کتنا نقصان پہنچایا اس کی ذات کسی کے لیے کتنی تکلیف کا باعث بنی يہ تو اس نے نہین سوچا اسی لئے غصے کی حالت مین کوئی فیصلہ نہین کرنا چاہيے اس وقت تک کہ حواس اپنی جگہ پر نہ آ جائین
ویسے بھی حکم ہے غصہ آئے تو ٹھندا پانی پئیں کھڑے ہيں تو بیٹھ جائیں بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیں يہ بات اسی حکمت پر مبنی ہے کہ انسان کو غور کرنے کا موقع مل جائے اور وہ جذبات مين آکر کوئی غلط قدم نہ اٹھالے ايک حاليہ واقعہ نے يہ لکھنے پر مجبور کیا حالانکہ ہم سب يہ جانتے ہین کہ غصہ حرام ہے نہین کرنا چاہيے اس کے باوجود انسان معمولی سی بات پر کس طرح کسی کا ہنستا بستا گھر اجاڑ دیتا ہے ايک گھر ميں کتیا نے بچے دئيے ہوئے تھے محلے کے شرارتی بچے پتھر مارتے کیونکہ گھر کے باہر تھوڑی سی جگہ اس کتیا کے لئے انہوں نے بنائی ہوئی تھی منع کرنے کے باوجود ایک چودہ سالہ لڑکا منع نہ ہوا
Islamabad
بلکہ گھر جاکر باپ کو کچھ ایسا بتایا کہ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ پستول لے کر آ گیا گھر کا سربراہ فوت ہو چکا تھا بائیس سالہ نوجوان لڑکا ايک مہینہ پہلے ہی اسلام آباد کسی محکمے میں نوکر ہوا تھا –وہ گھر آیا ہوا تھا اور اسی کی شکائت اس لڑکے نے باپ سے کی تھی سفاکی کی حد کہ اس آدمی نے پے در پے چار فائر جڑ دئیے دو نوجوان کے سینے مین لگے اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا ایک گولی اس کی مان کی آنکھ مین لگی اسے ہسپتال پہنچایا گیا جہاں اس کا آپریشن ہوا
جس دن اس کے بیٹے کی تدفین تھی اسی دن اس ماں کی آنکھ کا آپریشن تھا- ممتا کی تڑپ اسے چین نہ لينے دے رہی تھی وہ اپنے بچون سے اس کا حال پوچھتی کیونکہ اس کو گولیاں لگتے اس ماں نے دیکھا تھا- اس کا جوان بیٹا جس کی شادی ايک ماہ بعد ہونے والی تھی جس کی شادی کے کارڈ بٹ چکے تھے خریداری مکمل تھی – وہ بدنصیب ماں نہیں جانتی تھی کہ اس کا جوان بیٹا دنیا سے ناطہ توڑ چکا ہے مان کی حالت کے پیش نظر حقیقت کو چھپا لیا گیا-
بیٹیان اور ايک بیٹا جو حادثے کا شکار ہونے والے بيٹے سے چھوٹا ہے کیسے وہ اس صدمے کو جھیل کر ماں کے سامنے جاتے ہونگے اور اس ماں کو جب پتہ چلے گا تو وہ کیسے برداشت کر پائے گی غصے نے ایک مان کی دنیا اجاڑ دی بہنون کی وہ آنکھیں خون بہانے لگین جن مين بھائی کی شادی کے سپنے تھے خوشیان تھیں ایسے ہزارون واقعات روزانہ ھمارے ملک مین ہو رہے ہين ليکن مجرم کہاں جاتے ہیں؟ ان کو قانون سزا کيون نہين ديتا؟ انتظاميہ ان کو گرفتار کيون نہيں کرتی؟ آحر کب تک انسانوں کو چیونٹی کی طرح مسلا جاتا رہے گا ؟ کب تک يہ گلیان يہ محلے ناحق بہنے والے خون سے رنگین ہوتے رہیں گے؟ –کب تک بیوہ ماؤن کی گود کو ویران کيا جاتا رہے گا ؟
Allah
کون انسان کے جان ومال کو تحفظ دے گا؟؟ یا اللہ رحم کر دے اس ملک پر –اور ہم پر کوئی نیک حکمران مسلط کر جو ان برائیوں کو ديکھ سکے اور ان کے تدارک کی کوشش کرے