تحریر: محمداعظم عظیم اعظم بیشک نواز و بلاول اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نہ صرف اخلاقی طور پربلکہ قانون وآئین کے کئی آرٹیکلزکے تحت بھی کوئی کرپٹ اور جھوٹا، گالی دینے اور پگڑیاں اُچھالنے والا پاکستان کا لیڈر نہیں بن سکتا ہے،مگر کیا کریں کہ آج تک پاکستانی قوم کو ایسے ہی لیڈر ملے ہیں جو اِن تمام اخلاقی اور قانونی بیماریوںکے پرانے مرض میں مبتلارہے اور اُنہوں نے ہی خود کو پاکستانی قوم کااصل لیڈرثابت کرانے کی بہت کوششیں کیں جو اِس میں کامیاب ہوااُسے آج تک کوئی نہیں پکڑسکااور آج بھی کوئی اِس کا کچھ نہیں بگاڑپایاہے اگر یقین نہ آئے تو مُلک میں سیاسی رہنماوں اور حکمرانوں کی تاریخ اُٹھاکر دیکھ لیںسب ہی ننگے نظر آئیںگے توآج کس منہ سے وزیراعظم نوازشریف یہ کہہ رہے ہیں کہ جھوٹا، گالی دینے اور پگڑیاں اُچھالنے والاپاکستان کا لیڈرنہیں بن سکتاہے؟؟ آج اگر ہمارے وزیراعظم نوازشریف اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ مصروف ترین زندگی سے تھوڑاساوقت نکال کر رات کے اندھیرے اور تنہائی میں ایک لمحے کے لئے اپنے ہی گریبان میں اپنے ماضی و حال سے متعلق جھانک کر دیکھیںتو اِن کی اپنی ذات اور اِن کی زبان بھی ایسی ہی ضرور نظر آئے گی جن لوگوں کے بارے میں وزیراعظم یہ فرمارہے ہیں کہ” کوئی کرپٹ اور جھوٹا، گالی دینے اور پگڑیاں اُچھالنے والاپاکستان کا لیڈرنہیںبن سکتا ہے“۔
بہرکیف ،دوسری جانب ممکن ہے کہ اِس میں بھی کوئی شک نہ کل باقی تھااور نہ ہی کوئی اِس سے انکار کرے کہ قبلِ اَز پیدائشِ بلاول زرداری سیاسی اورعوامی حلقوں میں زرداری کی پہچان مسٹرٹین پرسنٹ کے ہی حوالے سے کی جا تی رہی تھی مگر جن کی اِس پہنچا ن میں مزید اضافہ ہماری شہیدِ رانی وفاق کی نشانی فخرِ پاکستان و اسلامی دنیا کی پہلی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہواجب یہ مسٹر زرداری صدرِ پاکستان بنے پھرکچھ ہی دِنوں میں دیکھتے ہی دیکھتی اِن کی پہچان مسٹر ٹین پرسنٹ کے بجائے ہنڈریڈپرسنٹ سے ہونے لگی اِنہیں پرسنٹیج کے معاملے میں اتنی ترقی کیسے ہوئی ہے؟؟اَب کسی کو اِس معاملے میں جانے اور جھانکنے کی کوئی ضرور ت نہیں ہے مگر زرداری سے متعلق مسٹرہنڈریڈپرسنٹ کہی ہوئی بات کی وضاحت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ءعمران اسماعیل سے ضرور لی جا نی چاہئے کہ جنہوں نے ایک نجی ٹی وی پروگرام میں بلاول زرداری بھٹو کے والدِ محترم آصف علی زرداری کے بارے میں یہ کیوں کہا کہ ”اکرام اللہ نیازی تو شریف آدمی ہیں مگر زرداری کی پہچان تو مسٹر ہنڈریڈپرسنٹ ہے“ عمران اسماعیل کے زرداری سے متعلق کہے ہوئے یہ الفاظ اور یہ جملہ بڑے معنی رکھتا ہے۔
Rhetorical
اَب سیاست کا سہارا لے کرمیڈیا میں اتنی بھی بدزبانی اور ذاتی معاملات پر پگڑیاں اچھالنے کی آزادی نہیں ہونی چاہئے کہ جس کے منہ میں کسی سے متعلق کچھ بھی آئے تو وہ اپنا منہ پھاڑکر بولنا اور گانا شروع کردے اِس میں کوئی شک نہیں کہ عمران اسماعیل کے زرداری سے متعلق کہے ہوئے اِ س جملے سے پاکستان پیپلز پارٹی والوں سمیت بہت سے ایسے بھی پاکستانی ضرور ہوں گے جو سیاست کو ذاتی کردار کشی سے دوررکھنے کے آرزومند ہیں آج سیاست دانوں کو اگر مُلک میں سیاست کرنی ہے تو اِنہیں ایک دوسرے کے ذاتی معاملات کو سیاست سے دو ررکھ کر سیاست کرنی ہوگی ورنہ سیاست کا عوامی خدمت کرنے کی روح اور مقصد فو ت ہوجائے گا جیسا کہ آج ہمارے سیاست دان آپس کی کردارکشی میں لگ گئے ہیں اور سیاست سے مُلک و قوم کی اصل خدمت اور ترقی و خوشحالی کرنے کے بجائے سیاسی اکھاڑے میں ایک دوسرے کی ذاتی کردارکشی کرکے اور ٹانگیںکھینچ کر اپنی آنکھوں میںاپنی ہی ترقی اور خوشحالی کا خواب سجائے میدانِ سیاست کی بچھی بساط کو اپنے ہی لیئے آگے بڑھا رہے ہیں۔
اَب اِس منظر اور پس منظر میں سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین رہے کہ سیاست نہ بچوں کا کھیل ہے اور نہ سیاست کا اناڑیوں سے کوئی واسطہ ہے، مگربدقسمتی سے پچھلے کئی سالوں سے سرزمینِ پاکستان میں سیاست بچوں اور اناڑیوں کا کھیل بن گئی ہے اِس لئے کہ کچھ اناڑی سیاسی کھلاڑیوں نے سیاست کو اپنے بچوں تک منتقل کرنے کے لئے سیاست کا وقار مجروح کرنے کی ٹھان لی ہے یعنی یہ کہ ما ضی میں جن کا سیاست میں خود کوئی مقام نہیں تھا، نہیں ہے اور نہ کبھی ہوگا جو خودکسی سیاسی حادثے کے باعث اتفاقیہ طور سیاست میں گھسے ، آج اُن ہی اناڑی سیاست دانوں کے بچے اُنہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں گود پڑے ہیں جن کے بڑوں کو سیاست کی امجد کا کچھ پتہ نہیں ہے آج وہی قوم پر سیاست کرنے کے لئے پَر تول رہے ہیں اور زبردستی کا سیاسی لیڈربننے کے لئے دوسروں کی تحریری تقایرعوامی اجتماعات میں پڑھ پڑھ کر یہ ثابت کرانے کی کوششوں میں لگے پڑیں ہیں کہ آج اِن سے اچھااور بااعتماد اور بڑاسیاسی لیڈرو رہنماءکوئی نہیںہے۔
Politics
اِسی لئے یہ اپنی تقایر میں کبھی کبھی کو بُرا کہہ رہے ہیں تو کبھی کسی کی سیاسی کردار کشی کررہے ہیں ،یعنی یہ کہ چھوٹامنہ اور بڑی بات کرکے یہ ثابت کرنے رہے ہیں کہ ایک یہی پاک صاف اور گنگا نہائے ہوئے ہیں اور باقی دوسرے جتنے بھی سیاسی انڈے ہیں سب گندے ہیں۔ حالانکہ سیاست باشعور اور سمجھ دار لوگوں کوہی زیب دیتی ہے،(جبکہ اَب سیاست میں میرے دیس میں ایسے لوگ نہیں رہے ہیں اور اگر کوئی دو چار ہیں بھی تو اُن کی بھی نہیں چلتی ہے ) کیونکہ وہ کونیل کی یہ بات اچھی طرح سے جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ” جو بات اخلاقی طور پر غلط ہو اُسے سیاسی طور پر درست قرارنہیں دیاجاسکتاہے“مگریہاں ہمارے لئے یہ بڑے افسو س کی بات ہے کہ آج میرے دیس پاکستان میں جو بھی بات اخلاقی طور پر غلط ہے اُسے حکمران اور سیاست دان زبردستی درست گرداننے کے لئے حکومتی مشینری کا استعمال کررہے ہیں اَب خواہ وہ پا نا ما لیکس کا معاملہ ہو یا اسلام آباد لاک ڈاون اور ہفتوں اور مہینوں دھرنے اور احتجاجوں کا کوئی سلسلہ ہو سب ہی اپنی غلط بات کو درست منوانے کے لئے سیاست کا لبادہ اُڑھ کرطاقتی حربے استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کررہے ہیں۔
آج یقینا ایسے لوگوں کوگوئٹے کی کہی ہوئی یہ بات معلوم ہی نہیں ہے کہ دراصل ” سیاست تو اِنسان کی آسمانی سرگرمی ہے جس سے لاکھوں اِنسانوں کی زندگیاں اور تقدیریں وابستہ ہوتی ہیں۔ آج سرزمین ِ پاکستان پر جن سیاستدانوں کے بچے اِنسانوں کی زندگیوںاور تقدیروں سے کھیلنے کے لئے سیاست کرنے کا ارادہ کرچکے ہیں پہلے تو اِن بچوں کو اپنا احتساب خود کرناچاہئے کہ وہ اِس قا بل ہیں کہ وہ سیاست کے متعین کردہ معیار پر پورے اُتررہے ہیں کہ نہیں؟؟ پھر اِنہیں سیاست کے پاک سمندر میں غوطہ زن ہونا چاہئے ورنہ سیاست سے کناراکشی اختیار کرلینی چاہئے۔