وزیراعظم میاں نواز شریف نے واشنگٹن جاتے ہوئے لندن میں قیام کے دوران پاکستان کے اس مؤقف کو دہرایا ہے کہ قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں اور انہیں بند ہونا چاہئے۔ اس سے ایک روز قبل اقوام متحدہ نے بھی ڈرون حملوں کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس بارے میں تفصیلات فراہم کرے۔ گزشتہ چند برس کے دوران قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کا معاملہ سیاسی طور پر ایک اہم ترین معاملہ کے طور پر زیر بحث رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے ہمیشہ یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ڈرون حملے اس کی مرضی کے بغیر ہو رہے ہیں۔ اس طرح یہ حملے پاکستان کی خود مختاری پر حملے کے مترادف ہیں۔ تاہم اس حوالے سے پاکستان نے عالمی سطح پر یا اقوام متحدہ کے کسی فورم پر کوئی پیش رفت بھی نہیں کی ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے یہ بات بھی کی جاتی رہی ہے کہ ڈرون حملے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں بے حد مؤثر ہتھیار کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ کہ پاکستان نے زبانی طور پر امریکہ سے اس بارے میں افہام و تفہیم کی ہوئی ہے۔
سابق حکمران پرویز مشرف نے چند ماہ قبل پاکستان واپس آنے کے بعد ایک انٹرویو میں یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ چند مواقع پر انہوں نے ڈرون حملوں کی اجازت دی تھی۔ پاکستان میں تحریک انصاف کے علاوہ دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں ڈرون حملوں کے حوالے سے انتہائی سخت گیر مؤقف اختیار کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے سیاسی طور پر یہ دلیل اختیار کی ہے کہ ڈرون حملوں سے دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ طالبان ان حملوں کو جواز بنا کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس طرح ایک طرف امریکہ کے خلاف رائے عامہ ہموار ہوتی ہے تو دوسری طرف انتہا پسند گروہوں کو دہشت گرد کارروائیوں کے لئے نئے نوجوانوں کو گمراہ کرنا بھی سہل ہو جاتا ہے۔ بعض اہم سیاسی قوتوں کے سیاسی دباو کی وجہ سے اب حکومت پاکستان نے بھی ڈرون حملوں کے بارے میں اسی قسم کا مؤقف اختیار کیا ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران بھی اس مؤقف کو دہرایا تھا۔
اب واشنگٹن جاتے ہوئے لندن میں ٹرانزٹ کے دوران بھی انہوں نے یہی بات کہی ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہیں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ اور یہ کہ ان سے انتہا پسند گروہوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔حیرت انگیز طور پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور حکومت کی طرف سے یہ مؤقف اس حقیقت حال کے باوجود اختیار کیا گیا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما یہ واضح کر چکے ہیں کہ ڈرون حملے بند نہیں ہوں گے۔ البتہ ان کے کنٹرول کو سی آئی اے کے براہ راست کنٹرول سے پینٹا گون منتقل کیا جائے گا۔ انہوں نے ڈرون حملوں کے حوالے سے ایک پالیسی بیان میں یہ بھی واضح کیا تھا کہ یہ حملے سب سے کم نقصان دہ ہوتے ہیں اور اپنے ٹارگٹ کو ہی نشانہ بناتے ہیں۔ البتہ اس حوالے سے بعض اوقات غلطی کا امکان ہوتا ہے اور سویلین ہلاکتیں بھی ہو جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ پاکستان کے تمام دفاعی ماہرین ڈرون حملوں کی افادیت سے اتفاق کرتے ہیں۔
Taliban
حقائق یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ ان حملوں کی بدولت بعض انتہائی خطرناک طالبان لیڈر ہلاک کئے گئے ہیں۔ لیکن سیاسی سطح پر ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے کہ دہشت گردی کی بات کرتے ہوئے ڈرون حملوں کی مذمت کرنا یا انہیں دہشت گرد حملوں کی وجہ قرار دینا ایک فیشن کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس کا بہت واضح مظاہرہ دو ماہ پہلے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مسئلہ پر ہونے والی ال پارٹیز کانفرنس میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ اس اجلاس میں جو قرار داد منظور کی گئی تھی اس میں طالبان کی دہشت گردی، ظلم اور بربریت کا ذکر تو نہیں ہے لیکن ڈرون حملوں اور اس کے سیاسی اثرات کا بہت تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس طرح پاکستان کی حکومت اور سیاسی جماعتوں نے خود ہی ایک ایسا جواز طالبان کو فراہم کر دیا ہے جسے وہ مذاکرات نہ کرنے کے حوالے سے مسلسل استعمال کر رہے ہیں۔ طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود اور ترجمان شاہد اللہ شاہد خاص طور سے ڈرون حملوں کو اپنی دہشت گردی کے جواز کے طور پر پیش کرتے ہوئے یہ دلیل دے چکے ہیں کہ ڈرون حملے بند ہونے سے پہلے مذاکرات شروع نہیں ہو سکتے۔
پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں بھی زور و شور سے اس دلیل کو استعمال کرتی ہیں اور اب وزیراعظم اور حکومت بھی اسی مؤقف کو دہرا رہی ہے۔ حالانکہ ڈرون حملوں کا سلسلہ 2004 ء سے شروع ہوا ہے۔ ان 9 برسوں کے دوران ایک واضح اور بامقصد پالیسی اور حکمت عملی سامنے آنی چاہئے تھی۔ لیکن پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کی جانب سے اسے محض سیاست کرنے کا زریعہ بنایا گیا ہے۔ او اب حکومت بھی اسء ڈگر پر چل رہی ہے۔اقوام متحدہ نے گزشتہ روز اس حوالے سے جو اعداد و شمار جاری کئے ہیں ان کے مطابق امریکہ نے اب تک 330 ڈرون حملے کئے ہیں۔ ان حملوں میں 2200 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور 600 زخمی ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مرنے والوں میں 400 شہری باشندے بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی اور انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے بین ایمرسن نے یہ اعداد و شمار فراہم کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس حوالے سے سی آئی اے کے راز داری کے قوانین کی وجہ سے امریکہ کی طرف سے معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
اس لئے امریکی حکومت کو تفصیلات فراہم کرنی چاہئیں۔ بین ایمرسن نے ڈرون حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر کسی شک و شبہ سے بالا ہونی چاہئے کہ کسی خود مختار ملک کی سرزمین پر ڈرون حملے اس ملک کی خود مختاری اور اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ امریکہ اس قسم کا ہتھیار استعمال کرنے سے پہلے متعلقہ ملکوں کی حکومتوں سے معاملات طے کرے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں کی حکومتوں کو اس ہتھیار کی افادیت کے پیش نظر سیاسی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بات تسلیم کرنی چاہئے کہ یہ حملے دہشت گردی کی بیخ کنی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس اس کو سیاسی رنگ دے کر عام لوگوں کو قوم پرستی کے نام پر گمراہ کرنے کا فائدہ محض انتہا پسند قوتوں کو ہی ہو رہا ہے۔
Drone Attacks
اس حوالے سے یہ بات نوٹ کرنا بھی بے حد ضروری ہے کہ صرف ڈرون حملوں سے ہی پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ عرب اور سینٹرل ایشیا کے متعدد ملکوں سے ہزاروں انتہا پسند پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ طالبان ان کی براہ راست سرپرستی اور حفاظت کرتے ہیں۔ یہ لوگ کسی قانونی اجازت کے بغیر پاکستان کی سرزمین میں آباد ہیں اور ان کا واحد مقصد مملکت پاکستان کے خلاف جنگ میں طالبان اور دیگر انتہا پسند قوتوں کا دست و بازو بننا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کی حکومت یا سیاسی جماعتیں ان خطرناک غیر ملکی باشندوں کی موجودگی کو کبھی موضوع بحث نہیں بناتے اور نہ ہی طالبان کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ وہ کس طرح ان غیر قانونی غیر ملکیوں کو پناہ دے کر پاکستان کے قوانین اور خود مختاری کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہماری مٹھی بھر سیاسی مذہبی جماعتوں اور ان کے طالبان نواز لیڈروں کو بھی یہ حقیقت تسلیم کرنے اور بیان کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ حالانکہ ڈروں حملوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی قومی حمیت اپنے عروج پر ہوتی ہے۔
ڈرون حملوں کے حوالے سے کبھی یہ بات بھی سامنے نہیں لاتی جاتی کہ پاکستان کی فضائیہ بھی قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کرتی ہے اور ان میں سینکڑوں بے گناہ بھی مارے جاتے ہیں۔ نہ ہی یہ حقائق کھل کر بیان کئے جاتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف ہر قسم کی فوجی کارروائی کے مقابلے میں ڈرون حملوں سے املاک اور شہریوں کا سب سے کم نقصان ہوتا ہے۔یہ سچائی تو ڈرون حملوں کی یکطرفہ بحث میں بالکل فراموش کر دی جاتی ہے کہ جن لوگوں کو ٹارگٹ کرنے کے لئے ڈرون حملوں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ ان کے ہاتھوں پاکستان کے 50 ہزار شہری اور 6 ہزار فوجی جوان جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ڈرون حملوں کی وجہ سے مرنے والے چند سو بے گناہ شہریوں کے مقابلے میں یہ نقصان ڈیڑھ سو گنا زیادہ ہے۔ پاکستان کو ڈرون حملوں کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ اصولی نقطہء نظر سے ضرور بات کرنی چاہئے۔ لیکن ان حملوں کو دہشت گردی میں اضافہ کے جواز کے طور پر پیش کرنا بالکل نامناسب اور غیر موزوں ہے۔ اصولی طور پر تو پاکستان کو امریکہ کے ساتھ ڈرون حملوں کے معاملہ پر باہمی طور پر قابل قبول کوئی معاہدہ کر لینا چاہئے۔ کیونکہ ڈرون ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے طالبان خوفزدہ ہیں اور جو ان کے پاوں تلے سے زمین نکال سکتا ہے۔