نواز شریف کا ڈرونز پر اپنا مئوقف

Barack Obama

Barack Obama

اوباما …… بارک اوباما صدر امریکہ، دنیا کی بہت بڑی مدہوش اور بے ہوش قوت جنگلی سانڈ کی طرح بد مست اور تہذیب کے بہروپ میں لیٹا ہوا بلیک اوباما۔ اس وقت خوبصورت، باوقار، مہذب، سافٹ، رباب و رقص اور غنا کے شائق میاں نواز شریف کا منتظر ہے۔ شرافت اور جناثت روبرو ہونے کو ہیں اور بظاہر بیگانہ بنی دنیا کی نظریں کروڑوں پاکستانیوں، اربوں چینیوں اور بھارتیوں اور بے شمار ایشیاً مسلمانوں سمیت اربوں عیسائیوں، یہودیوں کی نظریں اس ملاقات پر لگی ہوئی ہیں۔ اور یہ ملاقات کتنی مزید اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا اندازہ نہ نواز شریف کو ہے اور نہ ہی اوباما کو۔ لوگ عموماً اسے پاکستان اور پاکستان میں جاری دہشت گردی سے منسلک کر کے دیکھتے ہیں۔ پاک افغان اور زیادہ سے زیادہ بھارت سے تعلقات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ زیادہ ذہین و فطن دانشور اسے ڈرونز سے جوڑتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کہیں زیادہ نازک اور سنگین ہے۔ اس ملاقات میں ہونے والی چھوٹی چھوٹی باتیں، چھوٹے چھوٹے فیصلے نا صرف پاکستان، افغانستان اور بھارت پر اثر انداز ہونگے بلکہ دہشت گردی اور القاعدہ تحریک کے مستقبل کے حوالے سے بھی سنگ میل ثابت ہونگے۔

ایشیا کے امن کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کا امن خود امریکہ کا معاشی و اقتصادی مستقبل اور تحفظ ان چھوٹے چھوٹے فیصلوں سے متاثر ہو گا۔ لوگ ڈرون حملوں کی بندش کے پاکستانی مطالبے کو پاکستان اور نواز شریف سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ پاکستانی طالبان سے حکومت کے متوقع مزاکرات کے تناظر میں دیکھتی ہے۔ لیکن مسٹر اوباما پینٹا گون اور یورپی یونین سمیت دنیا بھی کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ڈرون حملے بند کرنے کا فیصلہ نہیں کیا جاتا تو خود امریکہ کے طالبان سے مزاکرات ناکام ہو جائیں گے۔ کیونکہ طالبان اب سمجھ چکے ہیں کہ پاکستان یا پاکستانی فوج کی حیثیت اس وقت ایک آلہ کار سے زیادہ نہیں ہے۔ دراصل خطے میں اور دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ درحقیقت امریکہ ہی کر رہا ہے۔ درحقیقت اوباما ہی کر رہا ہے۔ باقی پوری دنیا کی حیثیت تو اس کے کارندوں جیسی ہے۔ جو خود سے تھوڑا بہت تساہل تو کر سکتے ہیں، تھوڑی زیادہ چستی تو دکھا سکتے ہیں لیکن نہ تو فیصلے کر سکتے ہیں اور نہ ہی پالیسیاں بدل سکتے ہیں۔

اس لیئے اوباما پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بیٹھے طالبان اور القاعدہ کے متعلق جو بھی فیصلے کرے گا وہ دراصل واشنگٹن اور نیو یارک سے متعلق فیصلے ہونگے۔ فیصلوں کا اطلاق تو شائد وزیرستان وغیرہ پر ہو گا لیکن ان کے اثرات ڈائیریکٹ واشنگٹن اور نیویارک میں، لندن اور مانچسٹر میں، پیرس میں اور برلن میں محسوس کیے جائیں گے۔ اوباما سمجھ رہا ہے کہ طالبان مزاکرات کے نام پر وہ وقت حاصل کر رہا ہے لیکن نادان اوباما کو یہ نہیں معلوم کہ اسی آڑ میں طالبان اور القاعدہ بھی وقت حاصل کر رہے ہیں۔ امریکہ کہ طرح وہ بھی دنیا بھر میں اپنی پوزیشن مضبوط کر رہے ہیں۔ امریکہ اپنا دفاع اور پاکستان و ایران و دیگر اسلامی ممالک پر حملے کی پوزیشن مضبوط کر رہا ہے۔ جبکہ طالبان اور القاعدہ صرف امریکہ اور یورپ پر حملہ کرنے کے حوالے سے اپنی پوزیشن مضبوط کر رہے ہیں۔ لیکن نادان اوباما اور سادہ لوح نواز شریف نہ یہ بات خود کو سمجھا پا رہے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کو سمجھا پا رہے ہیں۔ امریکہ نے میاں برادران کی سادگی سے فائدہ اٹھا تے ہوئے جس طرح IMF کے چنگل میں پھنسا کر پاکستانیوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔

اس سے صاف نظر آرہا ہے کہ امریکہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ القاعدہ اور طالبان کی آڑ میں پاکستان پر دبائو بڑھانے کی پالیسی صاف بتا رہی ہے کہ القاعدہ اور طالبان پاکستان سے باہر بہت زیادہ مظبوط ہیں۔ اور یہ مظبوطی ایک دن امریکہ اور یورپ کو ناکوں چنے چبوانے والی ہے۔ سو یہ طے ہے کہ امریکی صدر بلیک اوباما کا پاکستانی وزیراعظم سے رویہ اور فیصلے دنیا بھر کے مقدر پر مہر لگانے والے ہیں۔ خصوصاً مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے ممالک میں پچھلے عرصہ سے امریکہ نے جو وحشیانہ اور متعصبانہ پالیسیاں اختیار کر رکھی ہیں ان کے خطرناک نتائج بھی سامنے آنے کو ہیں۔ مصر میں
جس طرح امریکہ اور طالبان کے مقاصد اکھٹے ہو گئے تھے اس نے بھی طالبان اور القاعدہ کو بہت کچھ سمجھا دیا ہے۔ اب صاف نظر آرہا ہے کہ طالبان اور القاعدہ بھی امریکہ کو امریکہ ہی کے ہتھیار سے مارنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ ایسے میں پاکستان دنیا بھی کے امن کیلئے واحد اور آخری امید ہے۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

اس پسِ منظر میں دنیا بھر کے امن کا سب سے بڑا ضامن صرف پاکستان ہی بن سکتا ہے لیکن اگر امریکہ پاکستان کو بھینٹ بنا کر القاعدہ کو پیش کرے تو پاکستان کہاں ک اس کے اشاروں پر ناچے گا۔ واشنگٹن میں ہونے والی وائٹ ہائوس کی یہ ملاقات جہاں نواز شریف اور پاکستان کیلئے اہم ہے وہیں یہ ملاقات امریکہ، اوباما اور دنیا بھر کیلئے بھی زیادہ اہم ہے۔ اس اہمیت کو محسوس کرنا، اپنے وزن اور طاقت کا درست اندازہ لگانا اس وقت میاں نواز شریف کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ اپنی اہمیت سے کم سطح پر کھڑے ہو کر تو بات بننے کی بجائے بگڑ بھی سکتی ہے۔ پاکستان میں میاں نواز شریف نے طالبان کو کھلے مزاکرات کی پیشکش کر رکھی ہے۔ ایک طرف ڈروان اس کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں تو دوسری طرف امریکہ کی آشیرباد کی اہمیت سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ۔اس لیے دنیا بھی کے دہشتگردوں، طالبان اور القاعدہ وغیرہ کی نظریں بھی نوازشریف اور اوباما کی ملاقات پر لگی ہوئی ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ مسٹر بلیک اوباما وہاں سے ان طالبان، القاعدہ اور دہشتگروں کیلئے کیا پیغام بھجواتے ہیں۔ اور جو بھی پیغام اب امریکہ سے آئے گا اس کا بہرحال بھر پور ردِعمل ہو گا۔ چاہے وہ مثبت ہو یا منفی۔

اس لیے مسٹر اوباما کو خالصتاً اپنے اور امریکہ و یورپ کے تحفظ کیلئے سوچ سمجھ کر آج کے نواز شریف کی اہمیت کو محسوس کر کے بات کرنا ہو گی۔ ورنہ نواز شریف تو ناکام ہونگے ہی، اوباما اور امریکہ بھی ہار جائیں گے اور دنیا دہشتگروں کے نرغے میں چلی جائے گی۔ بہر حال میاں نواز شریف جی، جب امریکی بلیک اوباما سے ملاقات ہو تو انہیں ایک مظلوم کشمیری کا بھی سلام کہنا اور سلامتی نہ سمجھیں تو پھر بھی میرا پر نام پیش کر دینا۔ خدا تیرا حامی و ناصر ہو۔ میاں نواز شریف کا دورہ امریکہ سے کیا نتائج سامنے آئیں گے۔ اوباما سے ملاقات سے قبل ہی ایک روڑ ساٹھ لاکھ کی امداد کا اعلان۔ دوسری جانب امریکہ نے ڈروں حملوں کو قانونی قرار دے دیا جبکہ پاکستان میزائل حملوں سلامتی کے خلاف سمجھتا ہے۔ ایک طرف ڈروں حملے دوسری جانب مذاکرات سے کبھی بھی امن کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ پاک امریکہ تعلقات کے حواے سے اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ یہی ڈرون ہیں۔ حالانکہ پاکستان کے عوام اور سیاسی جماعتیں چیخ چیخ کر ڈرون حملوں کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں۔ بلکہ اب تو ایمینسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ بھی سامنے آچکی ہے۔

جس میں امریکہ کو ڈرون حملے بند کرنے کا کہا گیا ہے۔ یہاں پر اگر میاں نواز شریف ڈرون حملوں کے بند کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ کیونکہ ان حملوں میں اب تک 900 افراد جن میں 168 معصوم بچے اور خواتین جو کہ کھیتوں میں کام کر رہے تھے ڈرونز کا نشانہ بنے جس پر امریکہ کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ بن سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمینسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ ڈرون حملے غیر قانونی ہیں اور بعض جنگی جرم ہیں۔ امریکہ کو ماورائے عدالت ہلاکتوں پر جوابدہ ہونے چاہیے۔ پاکستان متاثرین کو انصاف دلائے۔ ایک ڈرون حملے میں 68 سالہ خاتون نشانہ بنی، 18 مزدور کو کھانا کھاتے حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ ان غیر قانونی حملہ کے مرتکب افراد کو سزا ملنی چاہیے۔ امریکہ ڈرون حملے بند کرے عالمی برادری ان حملوں کے خلاف آواز اٹھائے۔ چونکہ امریکہ نے ڈرون کے ذریعے معصوم جانوں کو ہلاک کر کے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے ( منگل کو اگلا شکار میں ہوں ) کے نام پر جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں کسی قسم کی شفافیت نظر نہیں آئی۔

ایمینسٹی انٹرنیشنل کے تحقیق داں مصطفی قادری نے بتایا کہ ڈرون حملوں کے ارد گرد ارزداری کے پردے میں امریکی انتظامیہ کو عدالتوں اور عالمی قوانین کے دائرہ کار کی پرواہ کیے بغیر قتل عام کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ حقائق سامنے لائے اور ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کرے۔ مصطفی قادری کے مطابق حملوں میں مارے جانے والوں کی دادرسی تو دور کی بات ان حملوں کی ذمہ داری بھی امریکہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ انسانی حقوق کی ایک اور تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ یمن میں ڈرون سمیت دوسرے 45 حملوں کا جائزہ لیا گیا۔ جو شمای وزیرستان میں جنوری 2012 کو 68 سالہ خاتون ممانہ مائی جو اپنے کھیت میں سبزی کاٹ رہی تھی اور اس کے ارد گرد پوتے پوتیاں اور دیگ بچے بھی تھے ہلاک کر دیئے گئے جبکہ جنوری 2012 میں کھیتوں میں کام کرنے والے 18 مزدور جن میں ایک 14 سالہ لڑکا بھی شامل تھا ڈرون حملے میں جاں بحق ہو گئے۔

Taliban

Taliban

بلکہ اسے سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں بھی پیمانے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر امریکہ نے اپنا رویہ نہ بدلا تو پھر بلیک اوباما کو بری طرح ہذیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کم ازکم اسے یہ ضرور سوچنا چاہیئے کہ پاکستان نے ان کی جنگ میں اپنے چایس ہزار شہریوں اور پانچ ہزار سے زائد سکیورٹی فورسز جن میں آعلیٰ افسران بھی شامل ہیں کی قربانی دی ۔ جبکہ اربوں روپے کا مالی و اقتصادی نقصان الگ ہوا۔ بلیک اوباما کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ 2014 ء میں افغانستان سے اپنی فوجیں نکال رہا ہے۔ اور ان علاقوںمیں طالبان اور القاعدہ کا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ امریکہ اپنی مکمل فوج واپس نہیں بلائے گا کیونکہ ان کو اس بات کا مکمل اندازہ ہے کہ امریکہ کو ہمیشہ پاکستان کی ضرورت رہے گی۔ حکومت پاکستان نے آل پارٹیز کانفرنس بلوا کر طالبان سے مذاکرات سمیت اپوزیشن جماعتوں سے متفقہ مینڈیٹ بھی حاصل کر لیا ہے۔ لیکن طالبان اس پر بضد ہیں کہ پاکستان کی سرحد کے اندر جب تک ڈرون حملے بند نہیں کیے جاتے اس وقت تک وہ مذکرات نہیں کریں گے۔ جبکہ دیگر مطالبات میں پاکستانی فوج کا قبائلی علاقوں سے مکمل طور پر انخلاء بھی شامل ہے۔

حکومت کو اس سارے معاملہ میں لچک ضرور دکھانا ہو گی لیکن پاکستان کے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر حکومت کی رٹ مذاق بن جائے گی۔ تا ہم میاں نواز شریف کے دورے کے استقبالیہ خارجہ حکام، عالمی بنک، سابق وزیر خارجہ تجاری وفود سمیت امریکی صحافیوں سے ملاقات کے آثار بتا رہے ہیں کہ دورہ نہایت کامیاب رہے گا۔ ایشوز بیشک پرانے ہیں لیکن روپے نئے ہونے چاہئیں۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے جہاں مزائل حملوں کا معاملہ اٹھایا وہاں پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی، پاکستان کے معاشی داخلی حالات سرمایا کاری اور توانائی پر بھی بات ہوئی ہے۔ لیکن کشمیر کے معاملے پر ان کی آواز کمزور رہ گئی۔ کیونکہ پاکستان معاشی طور پر اس وقت ترقی کرے گا جب اس ملک میں استحکام قائم ہو گا۔ لیکن سب کچھ ڈرون سمیت اس وقت امریکہ کے افغانستان سے انحلاء کے ساتھ مشروط دکھائی دے رہا ہے۔

اگر میاں صاحب ڈرون رکوا کر اوباما کو طالبان کے معاملات سے دور رکھ کر کامیابی حاصل کر لیتے ہیں اور امریکہ سے پاکستان کی فوج اور اقتصادی امداد میں خاطر خواہ اضافہ کروا لیتے ہیں تو ان کی اس بڑی کامیابی کیا ہو گی۔ تاہم میاں نواز شریف ایک محب وطن، دردمند شخص ہیں جنہیں ان تمام ایشوز کے ساتھ مسئلہ کشمیر جو کہ کماری شہ رگ ہے کو بھی اٹھانا چاہیے تھا بلکہ کشمیر کا مسئلہ انتہائی اہم ہے کیونکہ بھارت جیسے ہمسائے دشمن کے ساتھ بھی دشمنی کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں ہو سکتی۔ اب تک بھارت کے ساتھ دشمنی پر ملک کا بچہ بچہ مقروض ہو چکا ہے۔ افغانستان کی جنگ سے جسے امریکہ کی جنگ کہا جاتا ہے ہمیں لے ڈوبی۔ پاکستان کے استحکام کیلئے دشمنوں سے آزاد ہو کر ترقی ممکن ہے۔ امریکہ کو کسی طرح بھی اختیار نہیں کہ وہ ہماری سلامتی کی دھجیاں اڑائے۔ قوم نے میاں نواز شریف سے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ امداد لے کر واپس آنے کی بجائے اپنے مطالبات منوا کر پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر کے آئیں۔
تحریر : طارق محمود