ریاست ہری بھری کھیتیوں، دریاؤں، پہاڑوں مرغزاروں، جھرنوں، آبشاروں اور شاندار عمارتوں کے مجموعے کا نام نہیں بلکہ ایسے انسانوں سے عبارت ہے جو اپنا فرض پہچانیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ مواقع سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے دفاع کی صلاحیت رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی نیابت عطا کی لیکن اُسے اپنی وحی کے تابع رکھا کیونکہ محدود عقلِ انسانی اُس وقت تک دنیا کی رہنمائی نہیں کر سکتی جب تک وہ اُس وحی الٰہی کے تابع نہ ہو جو اُس علیم و خبیر نے اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعے انسان تک پہنچائی۔
مذہب انفرادی نہیں اجتماعی معاملہ ہے جو وحی الٰہی کے تابع ہے اور ہماری سیاسی، سماجی اور معاشی و معاشرتی زندگی کے ہر پہلو کو وحی الٰہی کے تابع رکھنے کے احکامات جاری کرتا ہے۔ ہمارا دین ہمیں اللہ، رسول اللہ اور حاکمِ وقت کی اطاعت کا حکم دیتا ہے۔ اللہ اور اللہ کے رسول کے احکامات کی بجا آوری تو فرضِ عین ہے لیکن حاکمِ وقت کے احکامات کی پابندی اُسی وقت ہی کی جائے گی جب وہ وحی الٰہی کے تابع ہو۔ خلفائے راشدین کو اپنی ذمہ داریوں کا بخوبی ادراک و احساس تھا۔ اسی بنا پر وہ ربّ کے خوف سے سہمے رہتے تھے۔ اُنہوں نے اپنی زندگیوں پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس حدیث کو حاوی کر لیا تھا کہ ”تم میں سے ہر ایک راعی (چرواہا) ہے جس سے روزِ قیامت اُس کی بھیڑوں (رعایا) کا حساب لیا جائے گا ادراک ہمارے حکمرانوں کو بھی ہے لیکن وہ ماشااللہ خود ہی اتنے عقیل و فہیم ہیں کہ اُنہیں اپنی عقل کو وحی الٰہی کے تابع رکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔حضرت امام ابو حنیفہ ایسے لوگوں کو سب سے زیادہ زیاں کار کہتے ہیں جو علم رکھنے کے باوجود اپنی عقل کو اپنی خواہشات کے تابع رکھتے ہی۔ یہ کجی ہمارے حکمرانوں میں ہی نہیں بلکہ من حیث القوم بھی ہم اسی کا شکار ہیں۔
بقراط نے کہا ”جب موت ہمیں اپنے وقت میں سے ایک لمحہ بھی نہیں دیتی تو ہم موت کو اپنی زندگی میں سے کوئی لمحہ کیوں دیں۔ لیکن ہم تو موت کو صرف دوسروں کے لیے دیکھتے ہیں اپنے لیے نہیں اسی لیے ہم ”ہنوز دِلی دور است” پر عمل پیرا ہو کر اپنی حیات کا ایک ایک لمحہ ضائع کرتے چلے جا رہے ہیں یہ احکاماتِ الٰہی کی عدم پیروی اور اپنی عقل پر انحصار ہی کا شاخسانہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت کوتو عذابِ مسلسل سے تعبیر کیا ہی جاتا تھا لیکن وزیرِ اعظم میاں نواز شریف صاحب کو یہ دَور اتنا بھا گیا کہ اُنہوں نے جنابِ آصف علی زرداری کو الوداعی عشائیہ دیتے ہوئے یہاں تک فرما دیا کہ ہم جنابِ آصف زرداری کے نقشِ قدم پر چلیں گے کیونکہ ہمارا ایجنڈا ایک ہے۔ جو اباََ جنابِ آصف زرداری نے بھی فرمایا کہ ”ہم میاں نواز شریف کی قیادت میں پانچ سال چلیں گے اور سیاست پانچ سال بعد کریں گے۔ یار لوگوں نے تو یہی سمجھا کہ میاں صاحب محض رسماََ یہ سب کچھ کہہ رہے ہیں لیکن میاں صاحب نے عملی طور پر یہ سچ ثابت کر دکھایا۔ قوم نے اپنے عقیدتوں بھرے ووٹوں سے نواز کو محض اس لیے نوازا کہ اسے یہ توقع بندھ گئی تھی کہ دورِ ابتلاء تمام ہونے کو ہے اور صبح اُمید در و بام پہ اپنا نور بکھیرنے آن پہنچی لیکن ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا۔ آج صورتِ حال پیپلز پارٹی کے دَور سے بھی بد تر نظر آتی ہے اور مفلسی کی زنجیریں تو خیر کیا ٹوٹتیں ، بے کسوں، بے بسوں ، مجبوروں اور مقہوروں کے گرد شکنجہ کچھ زیادہ ہی کَس دیا گیا ہے۔
Nawaz Sharif
کل میرا مالی کہہ رہا تھا ”صاحب جی ! اب میں کبھی نواز شریف کو ووٹ نہیں دوں گا۔ اُس نے تو زرداری صاحب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ میں نے اُسے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی اور جناب پرویز رشید کی ”کڑوی گولی” کا حوالہ بھی دیا لیکن اُس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ ہوتا بھی کیسے کہ ایک مفلس معیشت کی گتھیاں نہیں سلجھاتا، اُس کی معیشت تو پیٹ سے شروع ہو کر پیٹ پر ہی ختم ہو جاتی ہے اور بھوک اور ننگ کا آج بھی یہ عالم ہے کہ
بھوک پھرتی ہے مرے دیس میں ننگے پاؤں رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے
جنابِ آصف زرداری اپنے پانچ سالہ عہدِصدارت میں لگ بھگ دو سال غیر ملکی دوروں پر رہے ۔میاں نواز شریف صاحب نے چونکہ زرداری صاحب کے نقشِ قدم پر چلنے کا عہد کر رکھا ہے اِس لیے وہ بھی پاکستان میں صرف تھکاوٹ دور کرنے کے لیے آتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اِس معاملے میں وہ جنابِ زرداری کا ریکارڈ توڑنے پر تُلے بیٹھے ہوں۔ اگر اُن کے غیر ملکی دوروں سے قوم کا کچھ بھلا ہوتا نظر آتا تو ہم بھی جُدائی کا غم سہ لیتے لیکن یہاں تو صورتِ حال یہ ہے کہ ہر کوئی وعدۂ فردا پہ ٹال رہا ہے ۔پچھلے دنوں وہ امریکی دَورے پر گئے اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُنہوں نے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی لیکن حاصل۔۔۔؟ امریکہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ ڈرون حملوں پر اُس کی پالیسی تبدیل ہو گی نہ وہ کشمیر پر کسی ثالثی یا مداخلت پر تیار ہے۔ عافیہ صدیقی کی رہائی پر بھی وہ مزید بات کرنے کو تیار نہیں البتہ جماعت الدعوة پر پابندی اور اپنے ”قومی ہیرو” شکیل آفریدی کی رہائی کے لیے اُس کی بے چینی قابلِ دید ہے۔امریکہ کو کنٹرول لائن پر کشیدگی کا ذمہ دار بھی پاکستان ہی نظر آتا ہے اِس کے باوجود بھی میاں صاحب مسلۂ کشمیر پر امریکی ثالثی کے لیے بیتاب ہیں۔
شکر ہے کہ امریکہ اِس ثالثی کے لیے تیار نہیں ۔اگر خُدا نخواستہ وہ تیار ہو گیا تو لکھ کر رکھ لیجئے کہ فیصلہ بھارت کے حق میں ہی ہو گا کیونکہ بھارتی دوستی کی قیمت پر اُس کا جھکاؤ پاکستان کی طرف ہونا نا ممکن ہے۔”ٹریڈ” کے معاملے میں بھی امریکہ پاکستان کے لیے اپنی پالیسیوں میں کسی نرمی کے لیے تیار نہیں۔ اِس معاملے میں اُس کا سیدھا سادا بہانہ یہ ہے کہ امریکی پالیسیاں وہاں کے صنعت کاروں اور سرمایہ داروں سے مشاورت اور اُن کے مفادات کو مدِ نظر رکھ کر بنائی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ امریکہ اُس وقت کہہ رہا ہے جب وہ افغانستان سے اپنا جنگی ساز و سامان آہستہ آہستہ نکال رہا ہے اور 2014ء میں اُس میں یکلخت تیزی آنے والی ہے۔امریکہ کے پاس اپنا اسلحہ اور جنگی سامان نکالنے کا پاکستان واحد ذریعہ ہے کیونکہ مشرقِ وسطیٰ کے چھوٹے چھوٹے ممالک نے راہداری کی مد میں اتنی رقم کا مطالبہ کر دیا ہے جسے ادا کرنا امریکہ کے بَس میں نہیں جبکہ دوسری طرف امریکی اسلحے سے لدے کنٹینروں نے ہماری سڑکوں کو مکمل برباد کر دیا لیکن ہم میں اتنی ہمت بھی نہیں کہ ہم امریکہ بہادر سے اِس توڑ پھوڑ کا اصل معاوضہ ہی طلب کر سکیں۔
Shahbaz Sharif
بڑے میاں صاحب کو تو خیر غیر ملکی دَوروں سے ہی فرصت نہیں لیکن چھوٹے میاں صاحب بھی سب کچھ حمزہ شہباز صاحب کے سپرد کر کے بڑے بھائی کی پیروی کرتے ہوئے اب بیرونی دَوروں پر ہی رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دَورِ حکومت میں قوم کو خادمِ اعلیٰ کے اندر جنّاتی صلاحیتیں نظر آنے لگی تھیں۔ اُنہوں نے اربوں روپیہ صرف کرکے صرف گیارہ ماہ کے قلیل عرصے میں ”ریپڈ بس” چلا دی جو یقیناََ آنے والی نسلوں کو بھی میاں صاحب کی یاد دلاتی رہے گی۔
سیانے کہتے ہیں کہ دشمن پر فتح حاصل کرنا بڑی بات نہیں، بڑی بات تو اُس فتح کو برقرار رکھنا ہے۔ ریپڈ بس بنانے کے بعد شاید میاں صاحب کی توجہ کسی اور طرف ہو گئی ہے۔
اربوں روپے کی لاگت سے تیار کیے گئے اِس منصوبے کے باوجود ٹریفک کی روانی میں سدھار نظر نہیں آتا۔ ریپڈ بس تو اپنے راستے پہ رواں دواں رہتی ہے لیکن اُس سے ہزار گنا زیادہ ٹریفک اب بھی جام رہتی ہے۔ اگر میاں صاحب ریپڈ بس کی بجائے موٹر سائیکلوں، رکشوں اور سائیکل رکشوں کے لیے سڑک کا ایک حصہ مختص کر دیتے تو نہ ٹریفک بلاک ہوتی اور نہ ہی اتنے ایکسیڈنٹ ہوتے۔
خادمِ اعلیٰ نے لاہور کی تقریباََ تمام سڑکوں کو کھُلا بلکہ ”کھُلا ڈُلا” کر دیا ہے لیکن تقریباََ ہر سڑک پر بد نظمی کا یہ عالم ہے کہ آدھی سے زیادہ سڑک تجاوزات اور رکشوں، ریڑھیوں اور گاڑیوں کی پارکنگ کی زَد میں آ چکی ہے۔ لاہور کی ٹریفک پولیس سے زیادہ نا اہل شاید ہی کوئی ہو۔ اگرخادمِ اعلیٰ کی یہ خواہش ہے کہ ٹریفک بِلا روک ٹوک ہر طرف رواں دواں رہے تو اُنہیں ٹریفک کے نظام کو بدلنا ہو گا کیونکہ ٹریفک کے نظام کی تبدیلی کے بغیر وہ تیس کیا ساٹھ ارب بھی صرف کر دیں مسٔلہ حل نہیں ہو گا۔